آیات 5 - 6
 

وَ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَنۡ لَّا یَسۡتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ وَ ہُمۡ عَنۡ دُعَآئِہِمۡ غٰفِلُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکیں بلکہ جو ان کے پکارنے تک سے بے خبر ہوں؟

وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمۡ اَعۡدَآءً وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمۡ کٰفِرِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی پرستش سے انکار کریں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَنۡ اَضَلُّ: اللہ کو چھوڑ غیر اللہ سے اپنی توقعات وابستہ کرنا اور اس غیر اللہ کی عبادت کرنا گمراہی کی انتہائی منزل ہے جس سے بڑھ کر کوئی گمراہی نہیں ہو سکتی چونکہ ان غیر اللہ کا حال یہ ہے:

۲۔ لَّا یَسۡتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ: قیامت تک اسے پکارتے ہو تو وہ اسے جواب نہیں دے گا۔ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ سے مراد ابدیت بتانا ہے کہ کبھی بھی اس کی طرف سے جواب نہیں آ سکتا۔ وہ معبود اس قسم کے ہیں کہ وہ جواب دے ہی نہیں سکتے۔

۳۔ وَ ہُمۡ عَنۡ دُعَآئِہِمۡ غٰفِلُوۡنَ: چونکہ وہ غیر اللہ اس کی پکار کا علم ہی نہیں رکھتا کہ کوئی اسے پکار رہا ہے۔ اگر یہ غیر اللہ جامد اور بے جان بت ہیں تو ظاہر ہے وہ اس کی پکار سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اگر وہ غیر اللہ فرشتے اور مقدس ہستیاں ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام تو وہ بھی ان کی پکار کا علم نہیں رکھتے چونکہ وہ معبود حقیقی نہیں ہیں لہٰذا معبود کی حیثیت سے ان کی پکار اور عبادت وصول نہیں کرتے۔ چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ یہ معبود ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔

۴۔ وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمۡ اَعۡدَآءً: جب قیامت کے دن وہاں ان کے ساتھ محشور ہوں گے تو یہ معبود ان کی کسی قسم کی مدد کرنے کی جگہ ان سے دشمنی کریں گے چونکہ یہ مشرک، دشمن خالق ہے لہٰذا خدا کے برگزیدہ بندے بھی ان کے دشمن ہوں گے۔

۵۔ وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمۡ کٰفِرِیۡنَ: وہ معبود ان کی عبادت سے بے خبر ہوں گے لہٰذا قیامت کے دن وہ اس عبادت کا انکار کریں گے جو یہ مشرک دنیا میں بجا لاتا رہا ہے چونکہ وہ ہستیاں نہ معبود تھیں، نہ یہ حرکات جو اس مشرک سے صادر ہوتی رہی ہیں عبادت تھیں۔


آیات 5 - 6