آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الزخرف

اس سورۃ مبارکہ کا نام آیت ۳۵ میں مذکور لفظ وَ زُخۡرُفًا سے ماخوذ ہے۔

یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی سوائے آیت ۴۵ کے جو بروایتی بیت المقدس میں نازل ہوئی۔ بعض دیگر روایات کے مطابق معراج کے موقع پر نازل ہوئی سورۃ زخرف، سور ہائے حوامیم کے سلسلے کی ایک سورۃ ہے جن کے مضامین تقریباً نزدیک ہیں۔ اس سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ حروف مقطعات کا تعلق سورۃ میں ذکر ہونے والے مضامین کی نوعیت سے ہے۔ والعلم عنداللہ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حٰمٓ ۚ﴿ۛ۱﴾

۱۔حا، میم۔

وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾

۲۔ اس روشن کتاب کی قسم ۔

اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾

۳۔ ہم نے اس (قرآن) کو عربی قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔

تفسیر آیات

۱۔ حٰمٓ: یہ سورہ سورہ ہائے حوامیم میں چوتھی سورہ ہے۔ اس سے پہلے سورہ مومن، سورہ حٰمٓ سجدہ، سورہ شوریٰ سورہ ہائے حوامیم ہیں۔

۲۔ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ: قسم ہے اس قرآن کی جو انسان کے لیے سعادت و نجات کی راہوں کا بیان کرنے والا ہے۔

۳۔ اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا: اس قرآن کو عربی زبان میں قرار دیا اور ممکن ہے عربی سے مراد زبان نہ ہو بلکہ فصاحت مراد ہو۔ کہتے ہیں: اعرب الرجل افصح القول والکلام۔ اس صورت میں زبان عربی کو اس لیے اختیار کیا چونکہ اس زبان میں بیان مطالب کے لیے بہتر اور فصیح تر اسلوب فراہم ہے۔

چونکہ قرآن کریم کے مخاطبین اولین عرب لوگ ہیں۔ پہلے مرحلے میں انہیں سمجھانا مقصود ہے۔ مخاطبین اول پر واجب ہے کہ وہ قرآنی پیغام کو آنے والی قوموں تک پہنچا دیں۔ چنانچہ فرمایا:

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۹)

اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں۔

اُنۡذِرَکُمۡ مخاطبین اول اور وَ مَنۡۢ بَلَغَ آنے والی قومیں ہیں۔

۴۔ لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ: کلام جس قدر غیر مبہم اور واضح ہو گا انسانی عقل اس سے مطلب بہتر سمجھ سکتی ہے۔ چونکہ انسانی عقل کسی بھی مطلب کو حواس ہی کے ذریعے سمجھ سکتی ہے، براہ راست نہیں۔

اہم نکات

۱۔ غیر مبہم انداز میں بات کرنے سے عقل کو سمجھنے کا بہتر موقع فراہم ہوتا ہے۔


آیات 1 - 3