آیات 41 - 43
 

وَ یٰقَوۡمِ مَا لِیۡۤ اَدۡعُوۡکُمۡ اِلَی النَّجٰوۃِ وَ تَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَی النَّارِ ﴿ؕ۴۱﴾

۴۱۔ اور اے میری قوم! آخر مجھے ہوا کیا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آتش کی طرف بلاتے ہو؟

تَدۡعُوۡنَنِیۡ لِاَکۡفُرَ بِاللّٰہِ وَ اُشۡرِکَ بِہٖ مَا لَیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ۫ وَّ اَنَا اَدۡعُوۡکُمۡ اِلَی الۡعَزِیۡزِ الۡغَفَّارِ﴿۴۲﴾

۴۲۔ تم مجھے دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اسے اللہ کا شریک قرار دوں جس کا مجھے علم ہی نہیں ہے اور میں تمہیں بڑے غالب آنے والے، بخشنے والے اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔

لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ لَیۡسَ لَہٗ دَعۡوَۃٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَا فِی الۡاٰخِرَۃِ وَ اَنَّ مَرَدَّنَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ اَنَّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ہُمۡ اَصۡحٰبُ النَّارِ﴿۴۳﴾

۴۳۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کی طرف تم مجھے دعوت دیتے ہو اس کی نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے اور نہ آخرت میں اور ہماری بازگشت یقینا اللہ کی طرف ہے اور حد سے تجاوز کرنے والے تو یقینا جہنمی ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یٰقَوۡمِ مَا لِیۡۤ اَدۡعُوۡکُمۡ: مومن آل فرعون اپنے پیغمبرانہ دعوت کو جاری رکھتے ہوئے اپنے موقف اور مشرکین کے موقف میں موازنہ کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں: میں تمہیں آتش جہنم سے نجات کی طرف بلاتا ہوں، تم مجھے آتش کی طرف بلا رہے ہو۔

۲۔ مَا لَیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ: تمہارے موقف پر کوئی دلیل نہیں ہے جو ثابت کرے کہ اللہ کا کوئی شریک موجود ہے۔ یہ شریک تمہارے وہم و خیال میں موجود ہے۔

جب کہ میرے موقف پر دلیل موجود ہے کہ اس کائنات کے نظام کی وحدت اس کے خالق کی وحدت پر دلیل ہے۔

۳۔ لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ: اپنے موقف پر دلیل پیش کر رہے ہیں کہ جس شریک کی طرف تم بلا رہے ہو اس کی طرف سے نہ کوئی رسول آیا، نہ کوئی کتاب نازل ہوئی، نہ کوئی معجزات پیش کیے گئے لہٰذا تمہارے شریکوں کی طرف سے نہ دنیا کے لیے کوئی دعوت ہے کہ ان کی طرف سے کوئی دستور حیات دیا گیا ہو، نہ آخرت کے لیے کوئی دعوت ہے کہ ابدی زندگی کی سعادت کا کوئی پیغام دیا گیاہو۔


آیات 41 - 43