آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ غافر

اس سورۃ المبارکہ کو المؤمن اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں مؤمن آل فرعون کا ذکر ہے۔ چنانچہ اس سورہ میں مؤمن آل فرعون کا موقف بڑے اہتمام کے ساتھ دس سے زائد آیات میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔

فضیلت سورہ ہائے حٰمٓ: سات سورہ ہائے قرآن المؤمن، السجدۃ، الشوریٰ، الزخرف، الدخان، الجاثیۃ اور الاحقاف کی ابتداء حروف مقطعات حٰمٓ سے ہوتی ہے۔ ان سورہ ہائے قرآن کو حوامیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جن کی چند ایک خصوصی فضیلت اور اہمیت ہے۔ ذیل میں اس موضوع پر چند احادیث کا ذکر کرتے ہیں:

زر بن حبیش راوی ہیں کہتے ہیں:

میں نے کوفہ کی جامع مسجد میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں قرآن کی اول سے لے کر آخر تک تلاوت کی۔ جب میں سورہ ہائے حوامیم تک پہنچا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

قَدْ بَلّغْتَ عَرَائِسَ الْقُرْآنِ۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۴: ۳۷۷)

تو قرآن کی زیبائشوں تک پہنچ گیا ہے۔

انس بن مالک راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الْحَوَامِیْمُ دِیْبَاجُ الْقُرْآنِ۔ ( مستدرک الوسائل ۔ ۴: ۲۱۸)

حوامیم قرآن کی زینت ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:

الْحَوَامِیْمُ سَبْعَۃٌ وَ اَبْوَابُ النَّارِ سَبْعَۃٌ جَہَنَّمُ وَ الْحُطَمَۃُ وَ لَظَی وَ سَعِیرٌ وَ سَقَرُ وَ ھَاوِیَۃُ الْجَحِیمُ۔ وَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ تَانِی کُلُّ سُوْرَۃٍ وَ تَقِفُ عَلَی بَابٍ مِنْ ھَذِہِ الْاَبْوَابِ وَ لَا تَدِعُ قَارِئَھَا مِمَّنْ آمَنَ بِاللّٰہِ اَنْ یُذْھَبَ بِہِ اِلَی النَّارِ۔ ( مستدرک الوسائل ۴: ۲۱۸)

حوامیم کی تعداد سات ہے اور جہنم کے دروازے بھی سات ہیں: جہنم، الحطمۃ، لظی، سعیر، سقر، ہاویہ، جحیم ۔ قیامت کے دن ان میں سے ہر سورہ جہنم کے ان دروازوں میں سے ایک کے آگے کھڑی ہو گی اور ایمان کے ساتھ ان سورہ ہائے قرآن کے پڑھنے والے کو آتش کی طرف جانے نہیں دے گی۔

یہ ایک سر بستہ راز ہے کہ ان سات سورتوں کی ابتداء حٰمٓ سے ہوتی ہے۔ ان کی ابتداء میں حروف مقطعات کی وحدت کس بات کی علامت ہے؟ کیا حروف مقطعات کی وحدت ان سورہ ہائے مبارکہ میں مضامین کی وحدت کی علامت ہے یا کسی اور خصوصیت کی وحدت ہے؟ احادیث میں ان سورہ ہائے مبارکہ کو دیباج القرآن ، قرآن کی زینت، ریحانۃ القرآن ، قرآن کا گلدستہ فرمایا ہے۔ ایک راز ہے جو تشنۂ تحقیق ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حٰمٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ حا، میم۔

تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اس کتاب کی تنزیل بڑے غالب آنے والے، دانا اللہ کی طرف سے ہے،

غَافِرِ الذَّنۡۢبِ وَ قَابِلِ التَّوۡبِ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوۡلِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۳﴾

۳۔ جو گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، شدید عذاب دینے والا اور بڑے فضل والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

تشریح کلمات

الطَّوۡلِ:

( ط و ل ) یہ لفظ فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ: یہ کتاب اس ذات کی نازل کردہ ہے جس کے یہ اوصاف ہیں:

الف: الۡعَزِیۡزِ: وہ ہر چیز پر غالب آنے والا ہے۔ لہٰذا کوئی کلام ایسا نہ ہوگا جو اس کے کلام پر غالب آ سکے۔

ب: الۡعَلِیۡمِ: وہ ایسا دانا ہے کائنات کے کسی گوشے میں کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہ ہو گی لہٰذا اس کتاب میں کسی قسم کی علمی خامی نہیں ہو گی۔

ج: غَافِرِ الذَّنۡۢبِ: گناہوں سے درگزر کرنے والے کی طرف سے ہے کہ وہ بہت سے گناہوں سے از خود درگزر فرماتا ہے۔

د: وَ قَابِلِ التَّوۡبِ: وہ توبہ قبول کرنے والا ہے کہ کوئی مشرک یا مجرم اپنے شرک اور جرم کو چھوڑ کر اس کی بارگاہ کی طرف رجوع کرے تو وہ معاف کرنے والا ہے۔

ھ: شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ: ساتھ منکرین، معاندین اور کفر پر ڈٹ جانے والوں سے خوب انتقام بھی لینے والا ہے لیکن اس کی نوبت غَافِرِ الذَّنۡۢبِ اور وَ قَابِلِ التَّوۡبِ کے بعد آتی ہے۔ دعائے امیر المؤمنین علیہ السلام میں آیا ہے:

یا من سبقت رحمتُہ غضبہ۔۔۔۔ ( بحار الانوار ۹۱: ۲۳۹)

اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب سے بہت پہلے ہے۔

ح: ذِی الطَّوۡلِ: بڑے فضل و کرم والاہے۔ قابل توجہ ہے کہ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ کے بعد بھی اس کے فضل و کرم سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ایک منکر اور معاند اپنے کفر پر ایسے ڈٹ جاتا ہے کہ شدید العقاب کا سزاوار ٹھہرتا ہے تاہم ابھی اللہ کے فضل و کرم کی طرف واپس آنے کی گنجائش موجود ہے۔

اس آیت میں رحمت کے تین اوصاف کے درمیان غضب کی ایک صفت بیان ہوئی ہے۔


آیات 1 - 3