آیت 37
 

ۣالَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ وَ یَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ وَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿ۚ۳۷﴾

۳۷۔ (وہ لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں) جو خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی تلقین کرتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں عطا کیا ہے اسے چھپاتے ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت آمیز سزا مہیا کر رکھی ہے۔

تفسیر آیات

خود بینی اور فخر کرنے والے کے بعد اللہ کو بخل کرنے والا نا پسند ہے۔ فیاضی ایک آفاقی اور فطری عمل ہے۔ سورج، زمین، آب اور ہوا نے اپنی فیاضی سے کائنات کو پر رونق بنایا ہے۔ اس کے خلاف بخل کرنا ایک نہایت گھٹیا عمل ہے۔جو شخص بخل کر کے دولت جمع کرتا ہے اور وہ اس عمل سے دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیتا ہے کہ مال و دولت بخل سے ہی بن سکتی ہے نیز بخیل اپنی بود و باش میں فقیروں کی طرح زندگی گزارتا ہے اور اس طرح اللہ کے فضل و کرم کو وہ عملاً چھپاتا ہے۔

وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ: اس جگہ کافر سے مراد اللہ کی نعمتوں کو چھپانے والے مراد ہو سکتے ہیں۔ چونکہ کفر چھپانے کے معنوں میں ہوتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اِذَا اَنْعَمَ اللہُ عَلَی عَبْدِہِ بِنِعْمَۃٍ اَحَبَّ اَنْ یَرَاھَا عَلَیْہِ ۔ (الکافی ۶:۴۳۸)

اللہ تعالیٰ جب کسی کو نعمت دیتا ہے تو وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کے آثار بندے پر ظاہر ہوں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اَلْبُخْلُ عَارٌ وَالْجُبْنُ مَنْقَصَۃٌ ۔ (مستدرک الوسائل ۷: ۲۸)

بخل عار و ننگ ہے اور بزدلی نقص و عیب ہے۔

نیز آپ علیہ السلام سے روایت ہے:

البُخْلُ جَامِعٌ لِمَسَاوِیِ الْعُیُوبِ وَ ھُوَ زِمَامٌ یُقَادُ بِہِ اِلَی کُلِّ سُوئٍ ۔ (مستدرک الوسائل ۷: ۲۹ باب ترحیم البخل)

بخل تمام عیوب کی برائیوں کا مجموعہ ہے اور یہ وہ لگام ہے جو ہر برائی کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے۔

حضرت امام حسن علیہ السلام سے بخل کے بارے میں روایت ہے:

البُخْلُ اَنْ یَرَی الرَّجُلُ مَا اَنْفَقَہُ تَلَفاً وَ مَا اَمْسَکَہُ شَرَفاً ۔ (مستدرک الوسائل ۷: ۲۳۸)

بخل یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ خرچ کرنا تلف کرنا ہے اور خرچ نہ کرنا شرف ہے۔


آیت 37