آیت 31
 

اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا﴿۳۱﴾

۳۱۔ اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔

تشریح کلمات

تَجۡتَنِبُوۡا:

( ج ن ب ) جنب سے ہے جو پہلو کے معنی میں ہے۔ کسی چیز سے پرہیز کرنے کے لیے یہ بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ کسی چیز سے پرہیز کرنا ہو تو اس سے پہلو پھیر لیتے ہیں۔

نُکَفِّرۡ:

( ک ف ر ) کفر ۔ چھپانا۔ قرآن میں یہ لفظ عفو و درگزر کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔

تفسیر آیات

اس آیت سے معلوم ہو اکہ گناہوں کی دو اقسام ہیں:

i۔ گناہان کبیرہ

ii۔ گناہان صغیرہ

اللہ کی نافرمانی اور گستاخی کے اعتبار سے تو ہر گناہ بڑا ہے، لیکن گناہ اور گناہ کی نسبت چھوٹے بڑے گناہ ہو سکتے ہیں ۔

گناہ کبیرہ کی تعریف: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اَلْکَبَائِرُ الَّتِی اَوْجَبَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَیْھَا النَّارَ ۔ ( اصول الکافی ۲: ۲۷۶)

گناہ کبیرہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے اللہ نے جہنم کی سزا مقرر کی ہو۔

ان میں سرفہرست شرک ہے۔ اس کے بعد ناحق قتل، زنا، سود خوری، جنگ سے فرار، عقوقِ والدین، ولایت اہل بیت علیہم السلام کا انکار اور دیگر گناہان کبیرہ کی تعداد بعض روایات میں ستر تک پہنچ جاتی ہے۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں کبائر یعنی گناہان کبیرہ کے مقابلے میں سئیات کا ذکر آیا ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سئیات سے مراد چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں۔ ان چھوٹے گناہوں ہی کے بارے میں دوسری جگہ ارشا د ہوتا ہے:

اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۱۱۴)

بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔

ان دونوں آیات سے یہ مطلب سامنے آتا ہے کہ اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو چھوٹے گناہوں کو اللہ خود عفو و درگزر یا نیکیوں کے ذریعے مٹا دیتا ہے، لیکن اگر گناہ بڑے ہوں تو ان سے درگزر کے لیے توبہ کی ضرورت ہے۔

گناہ کے بڑا ہونے کی صورت میں یہ دیکھنا چاہیے کہ ارتکاب گناہ کی نوعیت کیاہے؟ کیا ارتکاب نادانی کی وجہ سے ہوا ہے یا بارگاہ الٰہی میں جرأت اور گستاخی کی وجہ سے ہوا ہے یا خواہشات پر قابو نہ رکھنے کی وجہ یا گناہ کو خفیف سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے؟ پھر گناہ کبیرہ کے بھی مدارج ہیں۔ کچھ کبیرہ ہیں اور کچھ بہت زیادہ کبیرہ ہیں۔ مثلا زنا کبیرہ ہے۔ اگر یہ مسجد میں ہو تو زیادہ کبیرہ ہے۔ شادی شدہ عورت کے ساتھ ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔ یہ شادی شدہ عورت ہمسائے کی عورت ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔ یہ عورت اگر محرموں میں سے ہو تو اور زیادہ کبیرہ ہے۔

یہاں سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ روایات میں گناہان کبیرہ کی تعداد میں اختلاف کیوں ہے۔

سوال: کیا اس سے چھوٹے گناہوں کے ارتکاب کی تشویق نہیں ہوتی؟

جواب: اولاً اگر گناہ کو خفیف اور ناچیز سمجھے تو اس سے گناہ چھوٹا نہیں رہتا، بڑا ہو جاتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ گناہ صغیرہ کا ارتکاب بار بار ہو تو بھی صغیرہ نہیں رہتا، کبیرہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہؐ سے روایت ہے:

لاَ کَبِیْرَ مَعَ اُلِاسْتِغْفَارِ وَ لَا صَغِیْرَ مَعَ الْاِصْرَارِ ۔ (الوسائل ۱۵ : ۳۳۵ باب صحۃ التوبۃ)

استغفار کے ساتھ کوئی گناہ، کبیرہ نہیں رہتا اور بار بار ارتکاب کی صورت میں کوئی گناہ، صغیرہ نہیں رہتا۔

لہٰذا گناہ صغیرہ کی تشویق کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔

احادیث

حضرت علی (ع) سے روایت ہے:

اَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَھَانَ بِہٖ صَاحِبُہُ ۔ (نہج البلاغۃ حکمت: ۳۴۸۔ ص ۸۸۳ ۔ طبع امامیہ کتب خانہ۔ لاہور۔)

سب سے بھاری گناہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اسے سبک سمجھے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لَا صَغِیرَۃَ مَعَ الْاِصْرَارَ ۔ (من لا یحضرہ الفقیہ ۴: ۱۷)

بار بار گناہ کے ارتکاب سے گناہ، صغیرہ نہیں رہتا۔


آیت 31