آیات 22 - 25
 

وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور میں کیوں نہ اس ذات کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔

ءَاَتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً اِنۡ یُّرِدۡنِ الرَّحۡمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغۡنِ عَنِّیۡ شَفَاعَتُہُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا یُنۡقِذُوۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ کیا میں اس ذات کے علاوہ کسی کو معبود بناؤں؟ جب کہ اگر خدائے رحمن مجھے ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے تو ان کی شفاعت مجھے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اور نہ وہ مجھے چھڑا سکتے ہیں۔

اِنِّیۡۤ اِذًا لَّفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۲۴﴾

۲۴۔ تب تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔

اِنِّیۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّکُمۡ فَاسۡمَعُوۡنِ ﴿ؕ۲۵﴾

۲۵۔ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں لہٰذا میری بات سن لو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ: اس آیت میں مومن آل یاسین اپنا ایمانی موقف اور منطق عقلی دلیل کی بنیاد پر بیان کرتا ہے۔

الف: عبادت صرف اس ذات کی ہونی چاہیے جس نے پیدا کیا ہے۔ مشرکین اللہ کو خالق تسلیم کرتے تھے تو ان کے مسلمات سے استدلال ہوا ہے کہ جس ذات کو خود تم خالق تسلیم کرتے ہو، عبادت اور بندگی اسی کی ہونی چاہیے۔

ب: نیز عبادت اس ذات کی ہونی چاہیے جس کی طرف تمہاری بازگشت ہے۔ اس کے حضور تم نے حساب دینا ہے اور اپنی دائمی قسمت کا فیصلہ اسی سے سننا ہے

ج: ءَاَتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً: کیا میں ایسی بے حس جامد چیزوں کو اپنا معبود بناؤں کہ اگر میرا معبود حقیقی مجھ سے ناراض ہو جائے اور مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے عذاب میں ڈالنا چاہے تو یہ معبود نہ اللہ کی بارگاہ میں میری سفارش کر سکتے ہیں نہ عذاب سے چھڑا سکتے ہیں۔ مشرکین کے اس عقیدے کی رد ہے کہ ان کے معبود اللہ کے ہاں شفاعت کریں گے۔

۲۔ اِنۡ یُّرِدۡنِ الرَّحۡمٰنُ بِضُرٍّ: اگر رحمن مجھے ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے۔ رحمن سے ضرر کا تصور کیسے؟ اگر وہ رحمٰن رحم سے لبریز ذات ہے تو اس سے ضرر کیسا؟ جواب یہ ہے خدائے رحمن کی طرف سے عدل و انصاف ہوگا ظلم اور ضرر نہ ہوگا۔ لیکن انسان سے اگر گناہ سرزد ہوتا ہے تو اس صورت میں عدل الٰہی کے تحت انسان کو خود اپنی داعمالی کی وجہ سے ضرر پہنچے گا۔

۳۔ اِنِّیۡۤ اِذًا لَّفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ: اگر میں اس عادل کی عدالت میں اس حالت میں پہنچ جاؤں کہ نہ میری شفاعت کرنے والا کوئی ہو گا، نہ مجھے عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی ہو گا تو میں کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ لہٰذا خدائے واحد کی عبادت کرتا ہوں تاکہ رحمن کی رحمت میرے شامل حال ہو۔

۴۔ اِنِّیۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّکُمۡ فَاسۡمَعُوۡنِ: خطاب مشرکین سے ہے۔ جیسے اتَّبِعُوۡا اور تُرۡجَعُوۡنَ کا خطاب مشرکین سے ہے۔ یعنی میں تمہارے خالق اور تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں لہٰذا میری بات سن لو۔ ان مرسلین کی پیروی کرو، ان پر ایمان لے آؤ۔ جو مفسرین اس جملے کا مخاطب مرسلین کو قرار دیتے ہیں وہ قطعاً سیاق و مضمون آیت کے خلاف ہے کہ ایک امتی اپنے رسولوں سے فَاسۡمَعُوۡنِ ’’میری بات سنو‘‘ کہے۔ قرآن مشرکین کے لیے ربکم کے خطاب سے پر ہے:

قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۷۳)

تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آ چکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔

اہم نکات

۱۔ دعوت کا ایک اسلوب اپنا عقیدہ دلیل کیساتھ بیان کرنا ہے: وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ۔۔۔

۲۔ خالق ہونے کی وجہ سے لائق عبادت سمجھ کر، اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ اور خوف عدالت کی وجہ سے عبادت درست ہے۔


آیات 22 - 25