آیات 15 - 17
 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَاۡتِ بِخَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ﴿ۚ۱۶﴾

۱۶۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور نئی خلقت لے آئے۔

وَ مَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیۡزٍ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے مشکل تو نہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ: انسان اپنے وجود، اپنی بقاء میں اللہ کا محتاج ہے۔ اللہ سے ہٹ کر یہ انسان اپنا ایک سانس نہیں لے سکتا کہ اگر ایک لمحے کے لیے اللہ انسان سے ہاتھ اٹھا لے تو نیستی اور عدم کی تاریکیوں میں گم ہو جائے۔

روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو غیر اللہ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں کہ تم صرف اور صرف اللہ کے محتاج ہو۔ اسی کے در پر جاؤ۔

۲۔ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ: اللہ بے نیاز ہے۔ کسی اور کا سہارا لینے کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ وہ تمام کائنات سے بے نیاز ہے۔ وہ بندوں کی عبادت سے بے نیاز ہے۔ عبادت بندوں کی ضرورت ہے، اللہ کی نہیں۔ بندے کی ارتقا اور سر چشمۂ فیض سے اتصال عبادت میں ہے۔

۳۔ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ: اللہ تمہارے وجود کا محتاج نہیں ہے۔ تمہیں نابود کر کے اللہ دوسری مخلوق پیدا کر سکتا ہے۔ وہ اس دوسری مخلوق سے بھی بے نیاز ہے۔ تاہم بے نیازی کے باوجود مخلوقات کو زندہ رکھتا ہے صرف اپنے فیض کو جاری رکھنے کے لیے۔

۴۔ وَ مَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیۡزٍ: یہ کام اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام صرف ارادے سے ہوتا ہے۔ ارادہ کرنا اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ تعالیٰ ذات و صفات میں بے نیاز اور بندے مجسم نیازمند ہیں۔


آیات 15 - 17