آیات 55 - 56
 

وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ یُقۡسِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۬ۙ مَا لَبِثُوۡا غَیۡرَ سَاعَۃٍ ؕ کَذٰلِکَ کَانُوۡا یُؤۡفَکُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور جس روز قیامت برپا ہو گی مجرمین قسم کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں) گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے، وہ اسی طرح الٹے چلتے رہتے تھے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِیۡمَانَ لَقَدۡ لَبِثۡتُمۡ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوۡمِ الۡبَعۡثِ ۫ فَہٰذَا یَوۡمُ الۡبَعۡثِ وَ لٰکِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور جنہیں علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے: نوشتہ خدا کے مطابق یقینا تم قیامت تک رہے ہو اور یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم جانتے نہیں تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ: جب قیامت برپا ہو گی تو انہیں ایسا لگے گا کہ مرنے کے فوراً بعد قیامت برپا ہو گئی ہے۔ وہ قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم مرنے کے بعد صرف گھڑی بھر قبر میں رہے ہیں۔

۲۔ کَذٰلِکَ کَانُوۡا یُؤۡفَکُوۡنَ: یہ لوگ دنیا میں بھی ایسی ہی خلاف واقع اور خلاف حق باتیں کرتے رہے ہیں۔

۳۔ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِیۡمَانَ: جب کہ علم و ایمان سے سرشار لوگ اس مدت کے بارے میں صحیح موقف بیان کریں گے۔ یہاں الۡعِلۡمَ سے مراد برزخ میں توقف کی مدت کا علم ہو سکتا ہے۔ الۡاِیۡمَانَ سے مراد ایمان بہ آخرت ہی ہو سکتا ہے۔ یعنی عالم برزخ کے بارے میں علم اور آخرت پر ایمان رکھنے والے یہ موقف بیان کریں گے۔

۴۔ لَقَدۡ لَبِثۡتُمۡ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوۡمِ الۡبَعۡثِ ۫ فَہٰذَا یَوۡمُ الۡبَعۡثِ: تم نوشتہ خدا میں قیامت تک رہے ہو۔ کتاب اللہ سے مراد اللہ کا وہ فیصلہ ہے جو لوح محفوظ میں درج ہے یا اس کتاب میں درج ہے جہاں سے اہل علم و ایمان کو خبر دی گئی ہے۔

اہل علم و ایمان دنیاوی زندگی کے مراحل سے آگاہ ہوتے ہیں کہ یہ ایک سفر ہے اور منزل ان کے سامنے ہوتی ہے۔ اس طرح وہ مرنے کے بعد کے مراحل سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ جب کہ جو لوگ علم و ایمان سے محروم ہیں وہ اس زندگی کے مراحل و منازل سے بے خبر ہوتے ہیں۔

قیامت برپا ہوتے ہی قیامت سے پہلے جو وقت گزرا ہے وہ اسے ایک گھڑی سے زیادہ معلوم نہیں ہو گا۔

ان آیات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں حیات برزخی حاصل نہ تھی۔ وہ خیال کریں گے کہ مرنے کے بعد فوراً اٹھائے گئے ہیں۔ جیسا کہ سورہ یٰس میں فریایا کہ یہ لوگ کہیں گے:

قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ۔۔۔۔ (۳۶ یٰس: ۵۲)

ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟

جب کہ اہل علم و ایمان کو حیات برزخی حاصل تھی۔ انہیں اس مدت کا اندازہ ہے جو ان کی موت اور قیامت کے درمیان گزری ہے۔ اس لیے یہ اہل ایمان دوسروں سے کہیں گے: وَ لٰکِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ لیکن تم جانتے نہیں تھے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مجرموں کو موت اور قیامت کے درمیان فاصلہ صرف ایک گھڑی لگا ہے تو کیا انہیں قبر میں عذاب نہیں ہوتا تھا؟ جواب یہ ہے کہ یہ ان مجرمین کے بارے میں جنہیں قبر کے سوال و عذاب کے بعد حیات برزخی نہیں ملے گی۔ البتہ بہت بڑے مجرموں کو حیات برزخی ملے گی اور تاقیام قیامت وہ عذاب میں ہوں گے۔


آیات 55 - 56