آیت 195
 

فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی ۚ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ﴿۱۹۵﴾

۱۹۵۔پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کر لی ( اور فرمایا:) میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم ایک دوسرے کا حصہ ہو، پس جنہوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے نیز جو لڑے اور مارے گئے ان سب کے گناہ ضروربالضرور دور کروں گا اور انہیں ایسے باغات میں ضرور بالضرور داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، یہ ہے اللہ کی طرف سے جزا اور اللہ ہی کے پاس بہترین جزا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ: صاحبان عقل نے ذکر و فکر کے بعد راز زندگی اور حیات اخروی کو سمجھ لیا۔ وہ رسولوں پر ایمان لے آئے۔ اپنے قصور کا اعتراف کرنے کی منزل پر فائز ہونے کے بعد ان کی دعاؤں کو اللہ نے قبول فرمایا۔

۲۔ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ: اس کے بعد نہایت لطیف انداز میں فرمایا کہ قبولیت اعمال میں عمل اور عمل کنندہ میں کوئی تفریق نہ ہو گی۔ وہ مرد ہو یا عورت، اللہ کے نزدیک سب کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہ دونوں مخلوق خدا، انسان اور بندۂ خدا ہونے میں یکساں ہیں اور پھر مرد و زن میں سے ہر ایک، دوسرے سے کسی صورت میں جدا نہیں ہے۔ تخلیق و تربیت وغیرہ کے عمل میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ دونوں اولاد آدم ہیں۔ مرد، عورت اور عورت، مرد سے پیداہوتے ہیں: بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۔

۳۔ عورت کا مقام: عورت کے بارے میں قرآنی تعبیر بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ تم ایک دوسرے کا حصہ ہو۔ عورت کے مرد کی طرح انسانی قدروں کا مالک ہونے کے بارے میں قرآن کا کھلا مؤقف ہے، جبکہ نزول قرآن کے زمانے میں بہت سی تہذیبیں عورت کو مرد کے مساوی انسانی مقام دینے کے لیے آمادہ نہ تھیں:

اکثر قدیم قوموں کا یہ نظریہ تھا کہ عورت کا عمل اللہ کے پاس قابل قبول نہیں ہے۔ یونانی عورت کو شیطانی نجاست سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ بعض رومیوں اور یونانیوں کا خیال تھا کہ عورت نفس کی مالک نہیں ہے، جب کہ مرد غیر مادی نفس انسانی کے مالک ہیں۔ فرانس کے ادارہ تحقیقات نے سنہ ۶۸۵ عیسوی میں طویل بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کیا کہ عورت بھی انسان ہے، تاہم اسے مرد کی خدمت کے لیے خلق کیا گیاہے۔ ایک سو سال قبل تک انگلستان میں بھی عورت کو انسانی معاشرے کا حصہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ (المیزان ۴: ۸۹۔ ۹۰)

اس آیت میں بعض اہم نکات کی طرف اشارہ ہے:

۴۔ فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا: عمل صالح کی تفصیلات کا ذکر ہے کہ جن اعمال کو اللہ ضائع نہیں فرمائے گا وہ ہیں ہجرت، گھروں سے بے دخلی، راہ خدا میں اذیت کا تحمل۔ اور راہ خدا میں قتال اور قتل ہو جانا۔

۵۔ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ: اللہ کے پاس ایسے نیک عمل انجام دینے والوں کے لیے جو حسن ثواب ہے یعنی ایسے بہترین ثواب ہے جو کسی وصف و بیان میں نہیں آتا نہ کسی نے دیکھا نہ سنا ہو گا نہ ہی کسی کے تصور میں آیا ہو گا۔

امامیہ روایات میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی، جب آپ (ع) نے فواطم (چند فاطمہ) کے ہمراہ ہجرت فرمائی۔ فاطمہ بنت اسد، فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور فاطمہ بنت زبیر کے ہمراہ۔ (امالی الطوسی ص ۴۷۶)

اہم نکات

۱۔ بعض فطری خصوصیات میں مختلف ہونے کے باوجود مرد اور عورت کے درمیان حصول کمال میں کوئی فرق نہیں۔

۲۔ طبیعی تقاضوں میں اختلاف رکھنا نقص نہیں بلکہ حسن تخلیق کی علامت ہے۔

۳۔ گناہوں اور آلودگیوں سے پاک ہوئے بغیر جنت کے پاکیزہ ماحول میں داخل ہونا ممکن نہیں۔۔۔۔

۴۔ اسلام حقوق نسواں کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔


آیت 195