آیت 194
 

رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ﴿۱۹۴﴾

۱۹۴۔ ہمارے رب! تو نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ ہمیں عطا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

تفسیر آیات

۱۔ رَبَّنَا وَ اٰتِنَا: مومن ہمیشہ خوف و امید اور بیم و رجا کے درمیان رہتا ہے۔ اپنے گناہوں کے خوف سے اللہ کی پناہ میں آنے کے بعد امید و رجا کی منزل آتی ہے۔ اللہ نے اپنے انبیاء (ع) کے ذریعے نصرت، عزت اور نجات کا جو وعدہ کر رکھا ہے، اس کی امید کے ساتھ اس کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ وہ بھی اس ایمان و ایقان کے ساتھ کہ اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ ایسی ذات کی بارگاہ سے امید رکھنے میں جو کیف و سرور ہے، وہ ذوق عبودیت رکھنے والے ہی جان سکتے ہیں۔

۲۔ وَ لَا تُخۡزِنَا: قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا۔ یعنی اگر ہم اپنے گناہوں کے ساتھ محشور ہوں گے تو ہم ان لوگوں کے درمیان رسواء ہوں گے جن کے گناہ تو نے بخش دیے ہیں یا تیرے نیک بندوں کے درمیان ہم رسوا ہوں گے لہٰذا ہم کو نجات دے کہ ہم رسواء نہ ہوں۔

احادیث

گزشتہ پانچ آیات کے بارے میں بہت سی احادیث منقول ہیں جن سے ان آیات کی اہمیت ظاہرہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو مجمع البیان۔ تفسیر نور الثقلین وغیرہ۔

اہم نکات

۱۔ خوف و رجا، ارتقا و تکامل کے دو اہم عناصر ہیں۔


آیت 194