آیت 193
 

رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ﴿۱۹۳﴾ۚ

۱۹۳۔اے ہمارے رب! ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی دعوت دے رہا تھا: اپنے رب پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے، تو اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں سے درگزر فرما اور ہماری خطاؤں کو دور فرما اور نیک لوگوں کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرما۔

تفسیر آیات

۱۔ رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا: صاحبان عقل جو ذکر و فکر کی دولت سے سرشار ہوتے اور مقصد تخلیق سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں، وہ شعور کی اس منزل پر فائز ہوتے ہیں کہ ایمان کے منادی کی آواز سن سکتے ہیں۔ یعنی حق کے منادی نے فطرت کے کان میں ایمان کی جو اذان دی ہے، اس آواز کو صاحبان عقل پہچان لیتے ہیں اور اس لا محدود سفر کے لیے ایک رہنما اور ہادی کی ضرورت کا ادراک کرتے اور مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہادیان برحق نے اس زندگی کے لیے جو راستہ بتایا ہے اور جو نظام حیات عنایت کیا ہے، وہ حق پر مبنی وہی اذان ہے جو خالق فطرت نے ابتدا میں دی تھی۔

۲۔ فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا: عقل و شعور کی اس منزل پر آنے کے بعد انسان کو اپنی کوتاہیوں کا بھی ادراک ہو جاتا ہے۔ منصب کی عظمت کے ادراک سے فوراً اپنی کم لیاقتی کا احساس ہوتا ہے۔ سفر کی طوالت کے علم سے توشۂ راہ کی کمی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس لیے درگاہ الٰہی میں فوراً عفو و درگزر کی درخواست کرتا ہے۔

۳۔ وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ: ابرار کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرما۔ یہ دعا اس فہم و شعور کا نتیجہ ہے، جس کے تحت مؤمن اپنے انجام کے لیے فکر مند رہتا ہے۔

ایک حدیث میں ارشاد ہے:

فاز و اللہ الابرار و خسر الاشرار، اتدری من الابرار؟ ھم الذین خافوہ و اتقوہ و قربوہ بالاعمال الصالحۃ و خشوہ فی امرھم وعلانیتہم (مستدرک الوسائل ۱۱: ۲۲۳)

ابرار کامیاب اور اشرار گھاٹے میں ہیں۔ تجھے معلوم ہے ابرار کون لوگ ہیں؟ ابرار وہ لوگ ہیں جو اللہ سے خوف کرتے ہیں، اس کی نافرمانی سے بچتے ہیں اور نیک اعمال کے ذریعے اس کی قربت حاصل کرتے ہیں اور اپنے راز اور علانیہ میں خوف خدا دل میں رکھتے ہیں۔

واضح رہے ائمہ اطہار علیہم السلام ابرار کی فرد اکمل ہیں۔ دوسری حدیث میں آیا ہے:

حب الابرار ثواب الابرار، و حب الفجار فضیلۃ للابرار و بغض الفجار الابرار زین للابرار و بغض الابرار للفجار خزی علی الفجار ۔ (الکافی ۲: ۶۴۰)

نیک لوگوں کی نیک لوگوں سے محبت، نیک لوگوں کے لیے ثواب ہے۔ برے لوگوں کی نیک لوگوں سے محبت نیک لوگوں کے لیے فضیلت ہے۔ برے لوگوں کی نیک لوگوں سے عداوت نیک لوگوں کے زیب و زینت ہے۔ نیک لوگوں کی برے لوگوں سے عداوت برے لوگوں کے لیے رسوائی ہے۔

اہم نکات

۱۔ ابرار کی معیت ایک الٰہی انسان کے ارفع مقاصد میں سے ایک ہے۔

۲۔ حسن استماع ہدایت پانے کی بنیادی شرط ہے۔


آیت 193