آیات 86 - 87
 

کَیۡفَ یَہۡدِی اللّٰہُ قَوۡمًا کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِیۡمَانِہِمۡ وَ شَہِدُوۡۤا اَنَّ الرَّسُوۡلَ حَقٌّ وَّ جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اللہ کیونکر اس قوم کو ہدایت کرے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئی ہے حالانکہ وہ گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول برحق ہے اور ساتھ ہی ان کے پاس روشن دلائل بھی آ گئے تھے اور ایسے ظلم کے مرتکب ہونے والوں کو اللہ ہدایت نہیں کرتا۔

اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ اَنَّ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃَ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۸۷﴾

۸۷۔ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ کَیۡفَ یَہۡدِی اللّٰہُ قَوۡمًا: آیات کے تسلسل سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے۔

۲۔ کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِیۡمَانِہِمۡ: یہ لوگ رسول اکرم (ص) کے مبعوث ہونے سے قبل آپ (ص) کی علامات اور نشانیاں پڑھ کر آپ (ص) پر ایمان لا چکے تھے۔

۳۔ وَ شَہِدُوۡۤا اَنَّ الرَّسُوۡلَ حَقٌّ: اور آپ (ص) کے رسول برحق ہونے کی گواہی بھی دے چکے تھے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعا مانگتے تھے۔ یعنی انہوں نے حضور (ص) سے اپنی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں: وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۔۔۔۔ (۲بقرہ:۸۹) اور وہ پہلے کافروں پر فتح کی امید رکھتے تھے۔۔۔۔ بعد میں جب رسول اکرم (ص) مبعوث بر سالت ہوگئے تو انہی لوگوں نے کفر اختیار کیا اور آپ (ص) کو ماننے سے انکار کیا:

فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿﴾ (۲بقرہ:۸۹)

پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔

۴۔ وَّ جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ: اس رسول کے برحق ہونے پر ان کے سامنے واضح دلائل بھی پیش کیے گئے۔ لیکن وہ لوگوں نے ان سب کو مسترد کر کے کفر کا راستہ اختیار کیا۔

۵۔ اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ: ایسے لوگوں سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان کو رحمت خدا سے دور کیا جائے۔ ان پر اللہ فرشتے اور لوگوں کی طرف سے لعنت ہو۔ لوگوں سے مراد مؤمنین ہو سکتے ہیں۔


آیات 86 - 87