آیت 68
 

اِنَّ اَوۡلَی النَّاسِ بِاِبۡرٰہِیۡمَ لَلَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ وَ ہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ ابراہیم سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور ایمان لانے والے (زیادہ حق رکھتے ہیں) اور اللہ ایمان رکھنے والوں کا حامی اور کارساز ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یہود و نصاریٰ کے نزدیک ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت حقانیت کی دلیل ہے، جب کہ حقانیت کا اصلی معیار نسبت نہیں بلکہ اتباع ہے۔ دین ابراہیمی کی اتباع کرنے والے ابراہیم علیہ السلام سے نسبت قائم کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اور یہ حق رکھنے والے، یہ لوگ ہیں۔

۲۔ لَلَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ: جن لوگوں نے عقیدۂ توحید میں ابراہیم کی پیروی کی۔ یعنی اسلام کے آنے سے پہلے۔

۳۔ وَ ہٰذَا النَّبِیُّ: اور یہ نبی۔ یعنی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق انتساب ہے۔

۴۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: اور جو لوگ اس نبی پر ایمان لے آئے ہیں، وہ بھی چونکہ موحد ہیں، حق انتساب رکھتے ہیں۔

بنابریں نبی آخر الزمان (ص) اور آپ (ص) پر ایمان لانے والے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے انتساب اور ان کی وراثت کے زیادہ حقدار ہیں۔

اس آیت میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ کسی نبی کی امت یا کسی امام کے ماننے والوں میں شمار ہونے کے لیے واحد شرط اس نبی اور امام کی اتباع اور عملی پیروی ہے۔

اہم نکات

۱۔ کسی مذہب یا شخصیت سے انتساب کے لیے اس سے محبت اور اس کی حقانیت کا عقیدہ ہی کافی نہیں، بلکہ عملی پیروی بھی ضروری ہے۔

۲۔ یہود و نصاریٰ چونکہ ملت ابراہیمی کی عملی پیروی نہیں کرتے تھے، لہٰذا خدا نے ملت ابراہیمی سے ان کے انتساب کی نفی کی ہے۔

۳۔ رسول خدا (ص) چونکہ ہر لحاظ سے ملت ابراہیمی کے وارث ہیں، لہٰذا براہیم علیہ السلام سے نسبت کے وہ زیادہ حقدار ہیں۔


آیت 68