آیت 64
 

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ کہدیجئے:اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں، پس اگر نہ مانیں تو ان سے کہدیجئے: گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں۔

تفسیر آیات

یہاں روئے سخن عام اہل کتاب کی طرف ہے اب آسمانی ادیان کی مشترکہ اور یکساں اقدار کی حفاظت کی دعوت ہے۔ وہ مشترکہ اقدار جو تمام ادیان عالم کی روح ہیں اور انسانی فطری تقاضوں کے عین مطابق ہیں:

۱۔ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ: یعنی ’’ہم غیر اللہ کی عبادت نہ کریں‘‘ اور مسیح و روح القدس وغیرہ کی پرستش ترک کر کے صرف خدائے واحد کی عبودیت کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔ کیونکہ توحید تمام ادیان کا نقطۂ اتفاق ہے۔ چنانچہ توریت، توحید کی تعلیمات اور شرک کی ممانعت سے بھری پڑی ہے اور انجیل میں بھی توحید کی تعلیم پائی جاتی ہے۔ دیگر ادیان میں انحراف اور غیر اللہ کی پرستش عام ہونے کے بعد اب توحید پرستی صرف دین اسلام کا خاصہ ہے۔

۲۔ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا: یہ دین فطرت اور دین توحید کی طرف رجوع کی دعوت ہے۔ ان لوگوں کے لیے دعوت فکر ہے، جو اللہ کو ثالث ثلاثہ قرار دیتے ہیں یا اللہ کو عیسیٰ (ع)، عزیر (ع) یا فرشتوں کا باپ بناتے ہیں۔

۳۔ وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ: آپس میں اپنے جیسے انسانوں کو رب نہ بنائیں۔ کسی مخلوق کی مطلق العنانی کو قبول کرنا، اس مخلوق کی ربوبیت اختیار کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی ہم نوع مخلوق کو رب تسلیم کرنا، احترام آدمیت اور انسانی اقدار کے منافی ہے۔

غیر اسلامی نظاموں میں انسانوں پر انسانوں کی بالادستی ہوتی ہے۔ خواہ وہ نظام آمریت ہو یا نظام جمہوریت۔ سب سے بڑی بالادستی یہ ہے کہ کسی فرد یا جماعت کو قانون اور نظام حیات وضع کرنے کا حق دیا جائے۔ کسی انسان کو قانون سازی کا حق دینا، اس کو اپنا رب بنانے کے مترادف ہے۔ خدا اپنے رسول (ص) سے فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ۔۔۔۔ (۶۶ تحریم: ۱)

اے نبی! جو چیز اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دی ہے، اسے آپ حرام کیوں ٹھہراتے ہیں؟ آپ اپنی ازواج کی مرضی چاہتے ہیں؟

حالانکہ یہ رسول خدا (ص) کی طرف سے قانون سازی نہ تھی، بلکہ ان کا اپنا ذاتی عمل تھا اور آپ (ص) نے ایک حلال چیز کو ترک کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

اہل کتاب نے اپنے مذہبی پیشواؤں کی مطلق العنانی قبول کر رکھی تھی۔ ان کے نزدیک ان کے علماء قانون شریعت میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے تشریع میں دخل اندازی کو شرک قرار دیا:

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۹ توبہ: ۳۱)

انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا ہے۔۔۔۔

اس آیہ کریمہ میں ان لوگوں کی رد ہے جو نص قطعی کے ہوتے ہوئے اجتہاد کرتے ہیں (بیان القرآن ۱: ۲۰۲) اور شریعت میں دخل دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ائمہ اہل بیت (ع) کو معصوم اور ان کے ہر قول و فعل کو حجت سمجھنے کا مطلب یہ نہیں کہ (نعوذ باللّٰہ) وہ اپنی طرف سے قانون سازی اور تشریع کا حق رکھتے ہیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کا ہر قول و فعل حکم رسول (ص) کے مطابق ہوتا ہے اور نگہبان شریعت ہونے کے ناطے اللہ نے انہیں علوم انبیاء کا وارث بنا یا ہے۔ اس طرح امامیہ اپنے ائمہ کو بیان احکام میں معصوم سمجھتے ہیں۔ چنانچہ خود رسالتمآب (ص) کی عصمت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آپ (ص) کو اللہ کی جگہ شریعت سازی کا حق دیتے ہوں۔ دریا بادی نے اپنی تفسیرمیں قرطبی کا قول نقل کیا ہے، لیکن صرف ایک حصہ نقل کیا۔ قرطبی کی پوری عبارت یہ ہے:

و ھذا یدل علی بطلان القول بالاستحسان المجرد الذی لا یستند الی دلیل شرعی، قال الطبری: مثل استحسانات ابی حنیفۃ فی التقدیرات التی قدرھا دون مستندات بینۃ ۔ (الجامع لاحکام القرآن ۴: ۱۰۶)

یہ آیت اس استحسان کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جس کی تائید میں کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔ طبری کہتے ہیں: اس کی مثال ابو حنیفہ کے استحسانات ہیں، جنہیں وہ بغیر کسی واضح دلیل کے اپنی طرف سے حدود مقرر کر کے بنا لیتے تھے۔

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا: اگر یہ لوگ وحدتِ ادیان کی اس الٰہی آواز پر لبیک نہیں کہتے تو تم یہ اعلان کرو: اے منکرو! گواہ رہو، ہم تو مسلم ہیں۔ گواہ رہو کا جملہ ایک قسم کی تہدید ہے کہ تم کل دیکھو گے تمہارا کیا حشر ہو گا۔

احادیث

قال عدی بن حاتم: ما کنا نعبدہم یا رسول اللہ ص فقال: اَمَا کَانُوْا یُحِلُّوْنَ لَکُمْ وَ یُحَرِّمُوْنَ فَتَأَخُذُوْنَ

عدی بن حاتم نے رسول خدا (ص)سے عرض کیا: اے رسول خدا (ص) جب ہم مسیحی تھے تو اپنے علماء کی پرستش تو نہیں کرتے تھے۔ آپ (ص) نے فرمایا: کیا

بِقَوْلِھِمْ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ فَقَالَ: ھُوَ ذَاکَ ۔ (متشابہ القرآن ۱: ۴۵)

وہ اپنی مرضی سے حلال اور حرام نہیں بناتے تھے اور تم ان کی بات مانتے تھے؟ عرض کیا، جی ہاں! فرمایا: یہی عبادت ہے۔

اہم نکات

ادیان سماویہ کی روح یہ ہے:

۱۔ خدائے واحد کی عبادت کی جائے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔

۲۔ مخلوق کی ربوبیت کی نفی کر کے انسان کو اس کا انسانی وقار اور احترام آدمیت واپس دلایا جائے۔

۳۔ نص کے مقابلے میں علماء کے اجتہاد اور شریعت میں مداخلت کو قبول کرنا ان کو رب بنانے کے مترادف ہے۔


آیت 64