آیات 31 - 32
 

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۳۱﴾

۳۱۔ کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ کہدیجئے: اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر وہ لوگ روگردانی کریں تو اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔

شان نزول: کچھ ایسے افراد نے رسول اللہ(ص) کے سامنے اللہ سے محبت کا دعویٰ کیاجو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی کرتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(التبیان جلد اول ذیل آیۃ)

تفسیر آیات

محبت امر قلبی ہے اور قلب حقیقت پرست ہوتا ہے، جس پر حقیقت کے سوا کوئی اور چیز کارگر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ دین بھی عقیدے سے عبارت ہے اور عقیدہ امر قلبی ہے، جس پر جبر و اکراہ کارگر نہیں ہو سکتا: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (۲ بقرۃ: ۲۵۶) کی طرح کہا جا سکتا ہے کہ لَا اِکْراہَ فِی الْحُب۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

ھَلِ الدِّیْنُ اِلَّا الْحُبُّ ۔ ( اصول الکافی ۸: ۷۹)

کیا دین محبت کے علاوہ بھی کچھ ہے؟

سچی محبت وہ ہے جو محبوب کی ذات کے ساتھ ہو۔ کسی مفاد کے لالچ اور کسی سزا کے خوف سے محبت نہیں ہوتی۔ طمع اور خوف سے گردن تو جھکتی ہے، لیکن دل نہیں جھکتا۔ اللہ کے سچے عاشق حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے:

مَا عَبَدْتُکَ طَمَعاً فِیْ جَنَّتِکَ وَ لاَ خَوْفاً مِنْ نارِکَ وَلَکِنْ وَجَدْتُکَ اَھْلاً لِلْعِبَادَۃ فَعَبْدُتکَ ۔( عوالی اللآلی ۱: ۴۰۴)

اے میرے معبود! میں نے تیری جنت کے لالچ میں یا تیری جہنم کے خوف سے تیری عبادت نہیں کی بلکہ میں نے تجھے عبادت کا اہل پایا تو تیری عبادت کی۔

دیگر تمام عوامل سے قطع نظر صرف ذات سے محبت کا یہی انداز ہوتا ہے۔

عوامل: اللہ سے محبت کا اصل محرک، اللہ کی ذات ہے۔ یعنی اس ذات کا کمال اور کمال سے محبت ایک قدرتی امر ہوتاہے اور اس کے لیے شرط یہ ہے کہ کمال کا ادراک ہو۔ اگر کسی کے کمال کی معرفت نہ ہو تو اس کے ساتھ محبت نہیں ہو سکتی۔

آثار: محبت اور عشق الٰہی کے آثار:

i۔ اتباع رسول (ص): اگر محبت سچی ہو تواس کا تقاضا یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہو بلکہ محب تو محبوب کے حکم اور اشارے کا بے تابی سے منتظر رہتا ہے۔ جب وہ محبوب کا حکم سنتا ہے تو وجد اور کیف و سرور کی حالت میں آ جاتا ہے۔

یہاں محبوب حقیقی (اللہ) کی محبت تب ہی میسر آتی ہے، جب اس کی اور اس کے رسول (ص) کی اطاعت کی جائے۔ اس نے اپنے رسول (ص)کے ذریعے جو دستور حیات عطا کیا ہے، اس پر عمل کر کے محبت کا ثبوت فراہم کیا جا سکتا ہے۔ امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے: مَا اَحَبَّ اللّٰہَ مَنْ عَصَاہُ ۔ (وسائل الشیعۃ ۱۵: ۳۰۸)جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے وہ اللہ کا محب نہیں ہو سکتا۔

جملہ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ مقام مصطفی (ص)کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ ذات محمدی (ص) جہاں رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے، وہاں محبت و عشق الٰہی سے فیضیاب ہونے کا وسیلہ بھی ہے۔ آپ (ص) کی پیروی سے ہی محبوب خدا ہونے کا شرف حاصل ہوتاہے۔

ii۔ محب کے لیے محبوب کی طرف سے محبت کاجواب نہایت اہم ہوتا ہے۔ محب کے لیے اس سے زیادہ خوش کن خبر اور کیا ہو سکتی ہے کہ محبوب بھی اس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے دعویداروں کو یہ نوید سنا رہا ہے کہ میرے رسول (ص)کی پیروی کرو گے تو میں بھی تم سے محبت کروں گا۔ ورنہ اس جملے کا لہجہ یوں بھی ہو سکتا تھا: ’’ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو اس کی اطاعت کرو۔ ‘‘ لیکن یہاں دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا: اول یہ کہ رسول (ص) کی پیروی کرو۔ دوم یہ کہ اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔

iii۔ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ: اللہ کی طرف سے محبت کا نتیجہ اور لازمہ یہ ہو گا کہ وہ تمہاری خطاؤں سے بھی درگزر فرما ئے گا۔

خلاصہ یہ کہ اللہ سے محبت کا لازمہ اتباع رسول (ص) ہے اور رسول (ص) کی اتباع کا لازمہ اللہ کی طرف سے محبت اور اللہ کی محبت کا لازمہ اس کی طرف سے مغفرت اور درگزر ہے۔

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ: دوبارہ صراحت کے ساتھ بیان فرمایا: اتباع کا مطلب اطاعت ہے اور اطاعت کراہت کے مقابلے میں ہے۔ اطاعت قلبی لگاؤ کے ساتھ مطلوبہ کام کو انجام دینے کے معنوں میں ہے، جب کہ اتباع پیچھے چلنے کو کہتے ہیں۔ یعنی اللہ نے جو احکام صادر فرمائے ہیں، ان کو قلبی لگاؤ کے ساتھ انجام دے دو تو یہ اطاعت خدا و رسولؐ ہے اور اتباع رسولؐ، احکام کی تعمیل کی صورت میں وجود میں آتی ہے۔

احادیث

کافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

وَ مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَعْلَمَ اَنَّ اللہَ یُحِبُّہُ فَلْیَعْمَلْ بِطَاعَۃِ اللہِ وَ لْیَتَّبِعْنَا ۔ (اصول الکافی ۸: ۱۳۔ المیزان:۳: ۱۸۹)

جو یہ جاننا چاہتاہے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ کی اطاعت اور ہماری اتباع کرے۔

اہم نکات

۱۔ اطاعت کے بغیر محبت کا دعویٰ محض دھوکہ ہے۔

۲۔ ذات محمدی سے عشق، مغفرت خداوندی سے فیضیابی کا ذریعہ ہے۔


آیات 31 - 32