آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورہ آلِ عمران

اس سورہ میں ایک مقام پر آل عمران کا ذکر آیا ہے، اس وجہ سے سورے کا یہی نام قرار دے دیا گیا۔ عمران حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے والد کا نام ہے۔ بائبل میں ان کا نام عمرام آیا ہے۔

شان نزول: شیخ طوسی التبیان میں بعض مفسرین کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ اس سورہ کی تقریباً ساٹھ آیات نجران کے وفد کی آمد کے موقع پر نازل ہوئیں۔

اس سورۂ مبارکہ کی تلاوت کرتے ہوئے ان حالات کو سامنے رکھنا ہو گا، جو بوقت نزول موجود تھے۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں، جب امت قرآن ناقابل تحمل اندرونی و بیرونی مشکلات سے دوچار اور اپنی تشکیل و تعمیر میں مشغول تھی۔ ہجرت کے بعد مدینہ، جو کہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھری ہوئی ایک چھوٹی سی آبادی تھی، جس میں بے سر و سامانی کے عالم میں ایک جدید معاشرہ تشکیل پا رہا تھا، ان حالات میں اس تحریک کو درپیش ممکنہ مشکلات کے لیے رہنما اصول اس سورہ میں موجود ہیں۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ عام حالات میں دشمنوں سے کس طرح کے تعلقات استوار رکھنے چاہییں نیز خاص اور معروضی حالات میں اس تحریک اور اس کے ارکان کے تحفظ کے لیے کیا حکمت عملی (تقیہ) اختیار کرنی چاہیے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓمَّٓ ۙ﴿۱﴾

۱۔ الف۔ لام۔ میم۔

اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ الۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ؕ﴿۲﴾

۲۔ اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں جو زندہ (اور کائنات کا) زبردست نگہدار ہے۔

تفسیر آیات

ان آیات کی تفسیر کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیۃ الکرسی کی تفسیر۔


آیات 1 - 2