آیت 38
 

وَ عَادًا وَّ ثَمُوۡدَا۠ وَ قَدۡ تَّبَیَّنَ لَکُمۡ مِّنۡ مَّسٰکِنِہِمۡ ۟ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ فَصَدَّہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ وَ کَانُوۡا مُسۡتَبۡصِرِیۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ اور عاد و ثمود کو (بھی ہلاک کیا) اور بتحقیق ان کے مکانوں سے تمہارے لیے یہ بات واضح ہو گئی اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو آراستہ کیا اور انہیں راہ (راست) سے روکے رکھا حالانکہ وہ ہوش مند تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ عَادًا وَّ ثَمُوۡدَا۠: اور ہم نے قوم عاد اور قوم ثمود کو بھی ہلاک کیا۔ جن مقامات کو آج احقاف، یمن اور حضرموت کہتے ہیں یہاں قوم عاد آباد تھی اور شمالی حجاز میں رابغ سے لے کر عقبہ تک اور خیبر سے لے کر تبوک تک کے تمام علاقوں میں قوم ثمود آباد تھی۔

۲۔ وَ قَدۡ تَّبَیَّنَ لَکُمۡ مِّنۡ مَّسٰکِنِہِمۡ: شام اور یمن کی طرف اپنے سفروں میں تم ان کی تباہی کا مشاہدہ کرتے ہو۔ نزول قرآن کے زمانے میں مکہ والے ان علاقوں سے گزرا کرتے اور اس قوم کے تباہ شدہ گھروں کا مشاہدہ کرتے تھے۔

۳۔ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ: ان کے اعمال زشت کو شیطان نے خوشنما بنا دیا۔ اس لیے وہ ان جرائم کو نیک عمل سمجھ کر بجا لاتے ہیں۔ وہ شرک کو بہترین شکل دے کر تم کو دھوکہ دیتا رہا۔

۴۔ وَ کَانُوۡا مُسۡتَبۡصِرِیۡنَ: یہ قوم اپنی جگہ ہوشمند لوگ تھے۔ اس جملے کی چند ایک تفسیریں ہیں: ایک یہ کہ یہ قوم راہ راست سے منحرف ہونے سے پہلے دین فطرت دین توحید پر تھی۔ دوسری تفسیر یہ ہے: ان لوگوں کے شیطان کے ہتھے چڑھنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ نادان تھے بلکہ یہ خاصے عقل و خرد کے مالک ہونے کے باوجود گمراہ ہو گئے۔ ایک تفسیر یہ بھی کی جاتی ہے کہ یہ لوگ ضلالت اختیار کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ سیاق آیت ان تفاسیر کے ساتھ متصادم نہیں ہے لیکن کسی ایک تفسیر کا اختیار کرنا مقام تأمل ہے۔


آیت 38