آیات 34 - 35
 

اِنَّا مُنۡزِلُوۡنَ عَلٰۤی اَہۡلِ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ بے شک ہم اس بستی میں رہنے والوں پر آسمان سے آفت نازل کرنے والے ہیں اس بدعملی کی وجہ سے جس کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔

وَ لَقَدۡ تَّرَکۡنَا مِنۡہَاۤ اٰیَۃًۢ بَیِّنَۃً لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور بتحقیق ہم نے عقل سے کام لینے والوں کے لیے اس بستی میں ایک واضح نشانی چھوڑی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّا مُنۡزِلُوۡنَ عَلٰۤی اَہۡلِ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ: یہ تصور مسلمہ شمار کیا جاتا ہے کہ ایک ہولناک زلزلے کے نتیجے میں شہر سدوم دھنس گیا اور اس جگہ بحیرہ مردار وجود میں آیا جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے۔

۲۔ رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ: رجز عذاب کے معنوں میں ہے۔ سورہ ہود میں بھی اس عذاب کا ذکر آیا کہ یہ عذاب زلزلہ کی شکل میں تھا یا آسمان سے پتھروں کی بارش کی شکل میں۔

ممکن ہے یہ عذاب آتش فشانی کے دھماکے کے ساتھ آیا ہو جس میں زلزلہ بھی ہوتا ہے اور زمین تہ و بالا ہو جاتی ہے اور آتش فشانی کی وجہ سے اوپر سے پتھروں کی بارش بھی ہو سکتی ہے۔

۳۔ وَ لَقَدۡ تَّرَکۡنَا مِنۡہَاۤ اٰیَۃًۢ بَیِّنَۃً: یہ نشانی آج بھی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ کہتے ہیں آج تک بحر لوط کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اس دھماکے کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔

راقم کو سنہ ۲۰۰۱ء میں بحیرہ مردار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ موجودہ اردن اور فلسطین کے درمیان واقع اس علاقے پر آج بھی موت کے آثار چھائے ہوئے ہیں۔

چنانچہ صافات : ۱۳۷ میں فرمایا:

وَ اِنَّکُمۡ لَتَمُرُّوۡنَ عَلَیۡہِمۡ مُّصۡبِحِیۡنَ﴿﴾

اور تم دن کو بھی ان (بستیوں) سے گزرتے رہتے ہو۔

اور سورہ حجر ۷۵۔ ۷۶ میں فرمایا:

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُتَوَسِّمِیۡنَ﴿﴾ وَ اِنَّہَا لَبِسَبِیۡلٍ مُّقِیۡمٍ﴿﴾

اس واقعہ میں صاحبان فراست کے لیے نشانیاں ہیں اور یہ بستی زیر استعمال گزرگاہ میں (آج بھی) موجود ہے۔


آیات 34 - 35