آیت 86
 

وَ مَا کُنۡتَ تَرۡجُوۡۤا اَنۡ یُّلۡقٰۤی اِلَیۡکَ الۡکِتٰبُ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ ظَہِیۡرًا لِّلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۫۸۶﴾

۸۶۔ اور آپ کو یہ امید نہ تھی کہ آپ پر یہ کتاب نازل کی جائے گی مگر آپ کے رب کی رحمت سے لہٰذا آپ کافروں کے پشت پناہ ہرگز نہ بنیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا کُنۡتَ تَرۡجُوۡۤا اَنۡ یُّلۡقٰۤی اِلَیۡکَ الۡکِتٰبُ: رسالت ایسا منصب نہیں ہے جو اس کی توقع رکھنے والوں کو مل جائے یہ مقام کسی بشر کی سوچ سے بالاتر اور کسی انسان کے فکری افق سے وسیع تر ہے۔

اگر رحمت رب آپؐ کے شامل حال نہ ہوتی تو آپؐ بذات خود یہ امید تک نہیں کر سکتے تھے کہ یہ قرآن آپؐ پر نازل کیا جائے گا۔ ظاہر ہے اللہ کی رحمت سے ہٹ کر نہ نبوت مل سکتی ہے، نہ قرآن نازل ہو سکتا ہے۔ یہ رحمت آپؐ سے کبھی جدا نہ رہی، نہ ہی کوئی ایسا زمانہ آیا جس میں آپؐ ہوں اور یہ رحمت آپؐ کے ساتھ نہ ہو۔

تعجب ہے بعض اہل قلم نے اس بات کے اثبات کے لیے کئی صفحات لکھ ڈالے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے نبوت ملنے کی امید تک نہ تھی اور آپؐ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا بلکہ آپؐ وحی نازل ہونے کے بعدبھی شک میں رہے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ورقہ بن نوفل نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ آپؐ نبوت پر فائز ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا اللہ نے ایسے شخص سے رابطہ فرمایا جسے اتنا بھی علم نہ تھا جتنا ایک دوسرے شخص ورقہ بن نوفل کو تھا۔

ہم نے یہ بات کئی بار لکھی ہے کہ وحی کا تعلق صرف ظاہری حواس سے نہیں ہوتا۔ انبیاء علیہم السلام وحی اپنے پورے وجود کے ساتھ حاصل کرتے ہیں جس میں شک و تردید کی گنجائش نہیں ہوتی۔ جس قدر انہیں اپنے وجود پر یقین ہوتا ہے اسی قدر یقین سے وحی وصول کرتے ہیں۔

چنانچہ انبیاء وحی کی آواز سنتے ہیں۔ وہ ان کانوں سے نہیں سنتے اسی لیے جو لوگ نزول وحی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالکل پاس بیٹھے ہوتے تھے وہ آواز نہیں سنتے تھے اور نہ ہی فرشتۂ وحی کو دیکھ سکتے تھے۔

البتہ حضرت علی علیہ السلام کا ایک مقام ایسا آتا ہے جس میں وہ بھی ایسی آوازوں کو سن سکتے تھے۔خطبہ قاصعہ۱۹۲ نہج البلاغۃ میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّۃَ الشَّیْطَانِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْیُ عَلَیْہِ ۔

جب آپؐ پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی۔

میں نے پوچھا یا رسول اللہؐ! یہ آواز کیسی ہے ہے؟ آپؐ نے فرمایا:

ھذا الشیطان قد آیس من عبادتہ انک تسمع ما اسمع و تری ما اری الا انک لست بنبی ۔۔۔۔

یہ شیطان ہے جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہوگیا ہے۔ (اے علی) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو۔ فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو۔۔۔۔

شرح نہج البلاغہ میں ابن ابی الحدید ، مسند احمد بن حنبل سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں اس آواز کا ذکر ہے جسے رسول اللہؐ کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام نے بھی سن لیا تھا۔

۲۔ فَلَا تَکُوۡنَنَّ ظَہِیۡرًا لِّلۡکٰفِرِیۡنَ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات قابل تصور نہیں کہ آپؐ کافروں کے پشت پناہ بن جائیں۔ اس کے باوجود یہ خطاب اس لیے ہوا کہ مشرکین آپؐ کے قتل کے درپے تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم مل رہا ہے کہ اس مذموم کوشش میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ابن عباس کہا کرتے تھے۔ قرآن، ایاک اعنی فاسمعی باجارہ خطاب کسی سے، سمجھانا کسی اور کو مقصود ہے کی بنیاد پر نازل ہوا ہے۔ یعنی سر دلبران در حدیث دیگران کی بنیاد پر۔ اس آیت میں دوسروں کو بتانا مقصود ہے کہ کافروں کے پشت پناہ نہ بنیں۔

اہم نکات

۱۔ نبوت رحمت الٰہی ہے اور رسول رحمت کبھی بھی اس رحمت سے جدا نہ تھے۔


آیت 86