آیت 85
 

اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَنۡ جَآءَ بِالۡہُدٰی وَ مَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۸۵﴾

۸۵۔ (اے رسول) جس نے آپ پر قرآن (کے احکام کو) فرض کیا ہے وہ یقینا آپ کو بازگشت تک پہنچانے والا ہے، کہدیجئے: میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا ہے اور اسے بھی جو واضح گمراہی میں ہے۔

شان نزول: اس آیت کے شان نزول میں بخاری نے اپنی صحیح باب التفسیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے: لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ میں بازگشت سے مراد مکہ ہے۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:

اس روایت کو نسائی نے اپنی سنن باب تفسیر میں اور ابن جریر نے نقل کیا ہے۔

بغوی لکھتے ہیں:

اکثر مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہاں مَعَادٍ سے مراد مکہ ہے اور یہ آیت اکثر کے نزدیک مقام جحفہ میں نازل ہوئی جب آپؐ مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے اورحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وطن یاد آیا۔ اس لیے اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں نہ مدنی ہے، نہ مکی لیکن ایک نظریہ کے مطابق مدینہ سے پہلے نازل ہونے والی آیات سب مکی ہیں خواہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یا غیر مکہ میں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ: جس ذات نے آپؐ پر قرآن پڑھ کر سنانے اس کی تبلیغ و اشاعت کی ذمے داری ڈالی ہے وہ آپ کو اپنی جائے بازگشت(مکہ) کی طرف فاتحانہ طور پر واپس کرنے والی ہے جہاں سے آپ کو نکلنا پڑ رہا ہے۔

۲۔ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ: اللہ آپ کو اپنے مَعَادٍ کی طرف واپس کرنے والا ہے۔ مَعَادٍ کے معنی عادت ہے تو معنی یہ ہوں گے: جس جگہ کی رہائش کی عادت و الفت ہے۔ وہ روایات کے مطابق مکہ ہے۔ اور اگر عود سے ہے تو بھی مکہ مراد ہے چونکہ معاد الرجل بلدہ ہر شخص کی جائے بازگشت اپنا شہر ہوتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ لوگ حج کے لیے ہر سال مکہ کی طرف آتے ہیں مکہ کو مَعَادٍ کہتے ہیں۔

۳۔ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَنۡ جَآءَ بِالۡہُدٰی: یہ مشرکین کے اس طعنے کا جواب ہے جو کہتے تھے: محمد نے قوم کو گمراہ کیا۔ آپ کہدیجیے: میرا رب بہتر جانتا ہے کون ہدایت لے کر آیا ہے اور کون گمراہی میں ہے۔ آنے والا وقت بھی بتائے گا کہ کون کیا ہے۔ جس کی طرف سے میں ہدایت لے کر آیا ہوں اس کا علم مؤثر ہے۔ تمہارے واہموں کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والے باعزت اپنے وطن واپس ہو جاتے ہیں۔


آیت 85