آیت 30
 

فَلَمَّاۤ اَتٰىہَا نُوۡدِیَ مِنۡ شَاطِیَٴ الۡوَادِ الۡاَیۡمَنِ فِی الۡبُقۡعَۃِ الۡمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنۡ یّٰمُوۡسٰۤی اِنِّیۡۤ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ پھر جب موسیٰ وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے سے ایک مبارک مقام میں درخت سے ندا آئی: اے موسیٰ! میں ہی عالمین کا رب اللہ ہوں۔

تشریح کلمات

شَاطِیَٴ:

(ش ط ط) الشط کنارہ۔ عام طور پر نہر اور دریا کے کناروں کے لیے بولا جاتا ہے۔

الۡبُقۡعَۃِ:

( ب ق ع ) زمین کے ٹکڑے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّاۤ اَتٰىہَا نُوۡدِیَ مِنۡ شَاطِیَٴ الۡوَادِ الۡاَیۡمَنِ: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچ گئے تو وادی کے دائیں کنارے سے ندا آئی۔ یہ وادی کی دائیں جانب کا ذکر ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ وٰعَدۡنٰکُمۡ جَانِبَ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنَ ۔۔۔ (۲۰ طٰہ: ۸۰)

اور تمہیں طور کی دائیں جانب وعدہ دیا۔

اسی طرح ہے:

وَ نَادَیۡنٰہُ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنِ ۔۔۔ (۱۹ مریم: ۵۲)

اور ہم نے انہیں طور کی داہنی جانب سے پکارا۔

ان دونوں آیتوں میں صراحت ہے کہ دائیں سے مراد طور کی دائیں جانب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دائیں جانب نہیں ہے جیسا کہ بعض نے سمجھ رکھا ہے۔

الۡاَیۡمَنِ: دائیں جانب، جہتوں میں بہتر جہت سمجھی جاتی ہے اس لیے مؤمنین کو قرآن نے اصحاب الیمین کہا ہے اور غیر مؤمن کو اصحاب الشمال کہا ہے۔

۲۔ فِی الۡبُقۡعَۃِ الۡمُبٰرَکَۃِ: مبارک مقام میں۔ یہ وادی کی دائیں جانب کا کنارہ ہے۔ ایک مبارک مقام ہے چونکہ بقعہ مبارکہ میں اللہ نے تجلی فرمائی۔ اسی بقعہ مبارکہ میں داخل ہونے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جوتے اتارنے کا حکم ملتا ہے اور اسی وادی کو اللہ نے مقدس قرار دیا ہے:

فَاخۡلَعۡ نَعۡلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی (۲۰ طٰہ: ۱۲)

پس اپنی جوتیاں اتار دیں،بتحقیق آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں۔

۳۔ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنۡ یّٰمُوۡسٰۤی: ’’یا موسیٰ علیہ السلام‘‘ کی ندا درخت سے آئی۔ اس جگہ اللہ سے ہمکلام ہونے کے لیے درخت کو حجاب کی حیثیت حاصل ہے۔ سورہ شوریٰ آیت ۵۱ میں اللہ سے ہمکلام ہونے کی تین صورتیں بتائی:

وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ﴿﴾

اور کسی بشر میں یہ صلاحیت نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے ماسوائے وحی کے یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ کوئی پیام رساں بھیجے پس وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے بے شک وہ بلند مرتبہ حکمت والا ہے۔

اس ندا کا مضمون یہ تھا یّٰمُوۡسٰۤی اِنِّیۡۤ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ اے موسیٰ! میں کل کائنات کا مالک ہوں۔ عالمین کا واحد مالک آپ سے بات کر رہا ہے۔ یہ ندا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صرف کانوں سے نہیں اپنے پورے وجود سے سنی۔ چنانچہ آگ کی روشنی اپنی آنکھوں سے نہیں اپنے پورے وجود سے دیکھی تھی۔ کوئی اور آنکھ اس روشنی کو دیکھ سکتی ہے نہ کوئی کان اس ندا کو سن سکتا ہے۔


آیت 30