آیت 29
 

فَلَمَّا قَضٰی مُوۡسَی الۡاَجَلَ وَ سَارَ بِاَہۡلِہٖۤ اٰنَسَ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ نَارًا ۚ قَالَ لِاَہۡلِہِ امۡکُثُوۡۤا اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ اَوۡ جَذۡوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کر دی اور وہ اپنے اہل کو لے کر چل دیے تو کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دکھائی دی، وہ اپنے اہل سے کہنے لگے: ٹھہرو ! میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید وہاں سے میں کوئی خبر لاؤں یا آگ کا انگارا لے آؤں تاکہ تم تاپ سکو۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا قَضٰی مُوۡسَی الۡاَجَلَ: روایت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دس سال پورے کیے اور قصر فرعونی کی تعیش کی زندگی کے بعد پردیس میں غربت کی زندگی کا مزہ چکھنے کا موقع ملا۔ ایک اولوالعزم نبی بننے کے لیے مدین میں انسانی معاشرے کے نچلے درجے کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزار کر معاشرے کے درد و الم اور محرومیوں کا قریب سے مشاہدہ کرنا بھی ضروری تھا۔

۲۔ وَ سَارَ بِاَہۡلِہٖۤ: اور وہ اپنے اہل کو لے کر چل دیے۔ اس سفر سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا اہم ترین مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اسی سفر میں وہ مبعوث برسالت ہوتے ہیں اور جس فرعونیت سے بچنے کے لیے ہجرت کرنا پڑی تھی اسی کا مقابلہ کرنے کا حکم ملتا ہے۔

۳۔ اٰنَسَ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ نَارًا: طور کی جانب سے ایک آگ دکھائی دی۔ وقت رات کا تھا اور سردی کا زمانہ تھا۔

۴۔ قَالَ لِاَہۡلِہِ امۡکُثُوۡۤا: اپنے اہل و عیال سے فرمایا: ٹھہرو۔

۵۔ اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا: میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ یہ آگ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام دیکھ رہے تھے اس لیے فرمایا: میں نے دیکھی ہے۔ ورنہ تعبیر یوں ہوتی: دیکھو وہاں ایک آتش نظر آ رہی ہے۔ ہم نے یہ بات متعدد مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام وحی کو دیگر عام انسانوں میں موجود حواس کے ذریعے ادراک نہیں کرتے بلکہ وحی کو اپنے پورے وجود کے ساتھ ادراک کرتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ روشنی صرف آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ آنکھیں دوسروں کی بھی ہیں وہ بھی دیکھ لیتے۔ اسی خصوصی ادراک کو لفظ اٰنَسۡتُ اُنس کے ساتھ بیان فرمایا۔ چنانچہ زمخشری کے مطابق الابصار البین الذی لاشبھۃ فیہ۔ اُنس اس دکھائی دینے کو کہتے ہیں جس میں شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔

۶۔ لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ: اس آتش سے کوئی خبر مل جائے۔ یعنی اس آتش کے جلانے والے سے ہماری مطلوبہ خبر مل جائے۔ سورہ طٰہ آیت نمبر ۱۰ اَوۡ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی سے اشارہ ملتا ہے کہ اس سے مراد راستے کی خبر ہے کہ ہم راستہ بھٹک تو نہیں گئے ہیں۔

۷۔ اَوۡ جَذۡوَۃٍ مِّنَ النَّارِ: جاڑے کا زمانہ تھا سردی سے بچنے کے لیے اس آگ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس آگ کے گرد اگر کوئی انسان ہے تو اس سے خبر مل جائے۔ نہیں تو آگ سے فائدہ اٹھایا جائے۔


آیت 29