آیت 24
 

فَسَقٰی لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤی اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ﴿۲۴﴾

۲۴۔ موسیٰ نے ان دونوں (کے جانوروں) کو پانی پلایا پھر سایے کی طرف ہٹ گئے اور کہا: میرے رب! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَسَقٰی لَہُمَا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سن کر ان دونوں خواتین کے جانوروں کو پانی پلایا۔ حضرت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ طبیعت کا یہی تقاضا تھا کہ کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کے لیے لپکیں۔ مصر سے اسی جذبہ ایثار کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی۔

۲۔ ثُمَّ تَوَلّٰۤی اِلَی الظِّلِّ: سفر کی خستگی اور گرسنگی سے گرمی کی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے ان جانوروں کو پانی پلانے کے بعد سائے کی طرف لوٹ آئے۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام کی حالت نہج البلاغۃ میں بیان ہوئی ہے۔

۳۔ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ: میرے پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔ روایات کے مطابق یہاں خیر سے مراد طعام ہے۔ انداز طلب میں انتہائی نرمی ہے چونکہ خواہ انتہائی مجبوری ہی کیوں نہ ہو سوال دنیاوی مسئلے کا ہے۔ اگر اخروی مسئلہ ہوتا تو اصرار کے ساتھ مانگتے۔

مروی ہے کہ دنیا کی مذمت کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

وَ اللہِ مَا سَالَہُ اِلَّا خُبْزاً یَاْکُلُہُ لِاَنَّہُ کَانَ یَاْکُلُ بَقْلَۃُ الْاَرْضِ وَ لَقَدْ کَانَتْ خُضْرَۃُ الْبَقْلِ تُرَی مِنْ شَفِیفِ صِفَاقِ بَطْنِہِ لِھُزَالِہِ وَ تَشَذَّبِ لَحْمِہِ ۔ (نہج البلاغۃ خ ۱۶۰)

خدا کی قسم! انہوں نے صرف کھانے کے لیے روٹی کا سوال کیا تھا چونکہ وہ زمین کا ساگ پات کھاتے تھے اور لاغری اور (جسم پر) گوشت کی کمی کی وجہ سے ان کے پیٹ کی نازک جلد سے گھاس پات کی سبزی دکھائی دیتی تھی۔

اہم نکات

۱۔ انتہائی گرسنگی کی حالت میں بھی طعام کا سوال اللہ سے ہونا چاہیے۔

۲۔ محروموں کی کمک کرنا سیرت انبیاء علیہم السلام ہے۔


آیت 24