آیت 59
 

قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیۡنَ اصۡطَفٰی ؕ آٰللّٰہُ خَیۡرٌ اَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ؕ۵۹﴾

۵۹۔ کہدیجئے: ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں؟

تفسیر آیات

۱۔ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ: انبیاء علیہم السلام کی سرگزشت بیان کرنے کے بعد اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا: آپ اللہ کی حمد و ستائش کریں۔ وہ لائق حمد ہے۔ جو بھی حمد و ستائش قابل تصور ہے وہ سب اللہ کے لیے ہے۔ جس کسی میں حمد و ستائش کے قابل کوئی بات ہو گی تو اس کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔

۲۔ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیۡنَ اصۡطَفٰی: سلام ہو اللہ کے برگزیدہ بندوں پر۔ جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ یہ برگزیدہ بندے کون ہیں تو یہ آیت ہمارے سامنے آتی ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿﴾ ذُرِّیَّۃًۢ بَعۡضُہَا مِنۡۢ بَعۡضٍ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿﴾ (۳ آل عمران: ۳۳۔ ۳۴)

بے شک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا ہے۔ وہ اولاد جو ایک دوسرے کی نسل سے ہے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

لہٰذا قرآن کی رو سے برگزیدہ بندگان، انبیاء اور اولاد انبیاء علیہم السلام ہیں۔

۳۔ آٰللّٰہُ خَیۡرٌ اَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ: اللہ کے ساتھ ان لوگوں کا کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا جنہیں یہ مشرکین اللہ کے ساتھ شریک گردانتے تھے لیکن مشرکین ان شریکوں کو اللہ سے زیادہ چاہتے تھے اس لیے ایک دعوت فکر کے طور پر کہا گیا: کیا اللہ بہتر ہے جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے یا وہ بت جن کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے؟


آیت 59