آیت 47
 

قَالُوا اطَّیَّرۡنَا بِکَ وَ بِمَنۡ مَّعَکَ ؕ قَالَ طٰٓئِرُکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ تُفۡتَنُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ وہ کہنے لگے: تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لیے بدشگونی کا سبب ہیں، صالح نے کہا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ آزمائے جا رہے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوا اطَّیَّرۡنَا بِکَ: وہ بدشگونی کا سبب قرار دیتے تھے۔ عربوں کے اوہام میں سے ایک وہم یہ تھا کہ وہ پرندوں سے بدشگونی لیتے تھے۔اس لیے وہ ہر بدشگونی کو اطَّیَّرۡ کہتے تھے۔ ان کے مطابق حضرت صالح علیہ السلام نے ان کے معبودوں کو مسترد کرنے کی دعوت دی تو ان کے معبود ناراض ہو گئے اور بدشگونی کا سبب فراہم ہوا۔ سورۃ الاعراف آیت ۱۳۱ میں بھی بدشگونی کا ذکر ہوا ہے۔

۲۔ قَالَ طٰٓئِرُکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ: ان کے اپنے محاورے میں جواب دے رہے ہیں کہ تمہاری بدشگونی یعنی عذاب اللہ کے پاس ہے۔ جو کچھ حوادث پیش آرہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں۔

۳۔ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ تُفۡتَنُوۡنَ: یہ بدشگونی نہیں ہے بلکہ جن باتوں کو تم بدشگونی سمجھ رہے ہو وہ تمہارے لیے آزمائش ہیں جن سے مؤمن و کافر، نیک اور بد میں امتیاز آجاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ بدشگونی مشرکوں کا جاہلانہ واہمہ ہے۔


آیت 47