آیت 45
 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ فَاِذَا ہُمۡ فَرِیۡقٰنِ یَخۡتَصِمُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور ہم نے (قوم) ثمود کی طرف ان کی برادری کے صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو وہ دو فریق بن کر جھگڑنے لگے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا: حضرت صالح کو قوم ثمود کا بھائی بند اس لیے کہا گیا کہ ان کا تعلق اسی قوم سے تھا۔

۲۔ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ: تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت صرف اللہ کی بندگی اختیار کرنے پر مرکوز تھی۔

۳۔ فَاِذَا ہُمۡ فَرِیۡقٰنِ یَخۡتَصِمُوۡنَ: حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت قبول اور رد کرنے والوں پر مشتمل ہمیشہ کی طرح دو فریق وجود میں آ گئے۔

سورۃ الاعراف آیات ۷۵۔ ۷۶ میں ان دونوں فریقوں کا ذکر آیا ہے جس میں ایمان لانے والوں کو مستضعفین ، کمزور کہا ہے اور منکرین کو مستکبرین کہا ہے۔ دعوت انبیاء علیہم السلام معاشرے کا کمزور طبقہ قبول کرتا آیا ہے۔

ہم نے پہلے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ مستکبرین نے دعوت انبیاء علیہم السلام کو ہمیشہ ٹھکرایا ہے۔ اس کے دو اسباب ہیں : پہلا سبب یہ ہے کہ جن کے ضمیر مادیت کے تہ در تہ پردوں کے پیچھے ہوتے ہیں ان کے ضمیر تک انبیاء علیہم السلام کی آواز پہنچ نہیں پاتی۔ دوسرا سبب دعوت انبیاء علیہم السلام ان کے مفادات کے ساتھ متصادم ہوتی ہے اس لیے تقریباً تمام سرمایہ داروں نے دعوت انبیاء علیہم السلام کو مسترد کیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ مادیات اور مفادات قبول حق میں رکاوٹ ہیں۔


آیت 45