آیت 7
 

اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِاَہۡلِہٖۤ اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا ؕ سَاٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ اَوۡ اٰتِیۡکُمۡ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ (اس وقت کا ذکر کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا:میں نے ایک آگ دیکھی ہے، میں جلد ہی اس میں سے کوئی خبر لے کر تمہارے پاس آتا ہوں یا انگارا سلگا کر تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔

تشریح کلمات

شہاب:

( ش ھ ب ) الشہاب کے معنی شعلہ کے ہیں۔

قَبَسٍ:

( ق ب س ) آگ کا شعلہ یا اس کی چنگاری جو شعلے سے لی جائے۔

اٰنَسۡتُ:

( ا ن س ) الاُنس کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھنا کے ہیں۔

تفسیر آیات

مدین میں چند سال گزارنے کے بعد مصر واپس جاتے ہوئے صحرائے سینا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ واقعہ پیش آیا۔

۱۔ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِاَہۡلِہٖۤ: حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے افراد خاندان کے ساتھ تھے۔ اس لیے جمع کا صیغہ سَاٰتِیۡکُمۡ استعمال فرمایا۔

۲۔ اٰنَسۡتُ نَارًا: میں نے آگ دیکھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نظر آئی ہے۔ ہم نے پہلے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیہم السلام سے رابطہ عام بشری حواس کے ذریعہ نہیں فرماتا بلکہ ان تمام حواس سے بالاتر ذریعہ سے رابطہ فرماتا ہے جو دوسروں کے لیے قابل درک نہیں ہوتا۔ نہ دوسروں کو نظر آتا ہے، نہ سنائی دیتا ہے۔

۳۔ سَاٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ: اس سے ظاہر ہوتا ہے رات کی تاریکی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کا راستہ بھول گئے تھے مگر منزل پر پہنچ گئے تھے۔ یعنی نبوت کی منزل پر۔

۴۔ بِشِہَابٍ قَبَسٍ: موسم بھی سردیوں کا تھا۔ تاپنے کی ضرورت پیش آرہی تھی۔


آیت 7