آیت 224
 

وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ﴿۲۲۴﴾ؕ

۲۲۴۔ اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

کفار اکا ایک الزام یہ تھا کہ محمدؐ شاعر ہیں:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیۡبَ الۡمَنُوۡنِ﴿﴾ (۵۲ طور: ۳۰)

کیا یہ لوگ کہتے ہیں: یہ شاعر ہے، ہم اس کے بارے میں گردش زمانہ (موت) کے منتظر ہیں ؟

اس آیت میں فرمایا الشُّعَرَآءُ کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔

الشُّعَرَآءُ: قرآن کن لوگوں کو شعراء کہتا ہے؟ بعض کے نزدیک شعراء ان جنات کو کہتے ہیں جو وحی کی باتیں سن کر کاہنوں کو بتاتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا:

ہم القصاص ۔ (الوسائل ۱۷: ۱۵۴)

شعراء سے مراد قصہ گو لوگ ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے۔ فرمایا:

ھل رأیت شاعراً یتبعہ احد انما ہم قوم تفقہوا لغیر الدین فضلوا واضلوا ۔ (تفسیر البرہان ۴: ۱۹۴)

کیا تو نے کسی شاعر کو دیکھا ہے اس کی کوئی پیروی کر رہا ہو۔ یہاں شاعر سے مراد وہ قوم ہے جو غیر مذہبی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے پھر وہ گمراہ ہوتی اور گمراہ کرتی ہے۔

لہٰذا آیت میں شعراء سے مراد وہ لوگ ہیں جو حقائق اور واقع نفس الامری سے دور خیالات اور تصورات کی ایک موہوم دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ شاعری سے مراد وہ معنی نہیں ہو سکتے جو ہمارے درمیان متعارف ہیں چونکہ مشرکین قرآن کو شعر اور رسول کو شاعر کہتے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق قرآنی آیات حقائق کی نشاندہی نہیں کرتیں بلکہ یہ خیالات و تصورات کی باتیں ہیں۔


آیت 224