آیت 53
 

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ اَمَرۡتَہُمۡ لَیَخۡرُجُنَّ ؕ قُلۡ لَّا تُقۡسِمُوۡا ۚ طَاعَۃٌ مَّعۡرُوۡفَۃٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور یہ لوگ اللہ کی کڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے، ان سے کہدیجئے: تم قسمیں نہ کھاؤ، اچھی اطاعت (قسم سے بہتر) ہے، بتحقیق اللہ کو تمہارے اعمال کا ۔خوب علم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَقۡسَمُوۡا: یہ ایمان سے عاری لوگ کڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے آمادہ ہیں خواہ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر یا جہاد کے لیے نکلنا پڑے۔

۲۔ قُلۡ لَّا تُقۡسِمُوۡا: ان سے کہدیجیے قسم نہ کھائیں۔ قسموں کے ذریعے باتوں کے شیر نہ بنو۔ قسمیں زیادہ کھانا، کلام کے حقیقت سے عاری ہونے کی علامت ہوتی ہے۔ اس کے بے حقیقت ہونے کی خلا کو قسموں سے پر کرنا چاہتے ہیں۔

۳۔ طَاعَۃٌ مَّعۡرُوۡفَۃٌ: اگر اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنی ہے تو اس کا طریق کار سب کے سامنے ہے۔ کسی قسم کی ضرورت نہیں ہے۔ جس اطاعت کا تمہیں حکم ہوا ہے وہ اطاعت معروف و معلوم ہے۔ بعض نے اس کے یہ معنی کیے ہیں: تمہاری اطاعت کا حال سب کو معلوم ہے۔ صرف زبان کی حد تک ہے۔

۴۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ: تم اپنی قسموں سے اس خلا کو پرُ نہیں کر سکو گے۔ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

اہم نکات

۱۔ جھوٹ بولنے والا نفسیاتی طور اپنے جھوٹ کا احساس کرتا ہے۔ اس احساس کو دور کرنے کے لیے قسموں کا سہارا لیتا ہے۔


آیت 53