آیت 51
 

اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ جب مومنوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو مومنوں کا قول تو بس یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں: ہم نے سن لیا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذَا دُعُوۡۤا: مؤمن وہ ہے جب اللہ اور رسولؐ کی طرف بلایا جائے تو وہ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا کہیں۔ قابل توجہ اِذَا دُعُوۡۤا کا لفظ ہے۔ خدا و رسولؐ کی طرف بلایا جائے۔ بلانے والا کون ہو؟ آیت میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے ہر بلانے والا شامل ہے۔ خواہ بلانے والا نزاع کا دوسرا فریق ہو کہ وہ پہلے فریق کو اللہ اور رسول کے حکم کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دے یا بلانے والا حاکم شرع ہو یا دیگر مؤمنین نزاع کے فریقین کو شریعت کی طرف دعوت دیں تو لبیک کہنا ایمان کی علامت ہے۔ بلانے والا کوئی ہو، اصل دعوت تو اللہ و رسولؐ کی طرف رجوع کرنے کی ہے۔

۲۔ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ: فلاح و نجات اس میں ہے کہ اپنے مقدمات کا فیصلہ اللہ اور رسولؐ سے لیں، خواہ رسول ؐ کی زندگی میں ہو یا رسولؐ کے بعد چونکہ اللہ و رسول کا حکم کسی ایک زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ آیت حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شان میں ہے۔ (التبیان ۷: ۴۵۲)

اہم نکات

۱۔ مفادات سے تصادم کی صورت میں ایمان کی حقیقت فاش ہو جاتی ہے۔

۲۔ مقدمات کا فیصلہ اللہ اور رسولؐ سے نہ لینا عدم ایمان کی علامت ہے۔


آیت 51