آیات 27 - 28
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ کر لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔

فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدۡخُلُوۡہَا حَتّٰی یُؤۡذَنَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا فَارۡجِعُوۡا ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اگر تم اس گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو بغیر اجازت کے اس میں داخل نہ ہونا اور اگر تم سے لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو لوٹ جاؤ، اسی میں تمہاری پاکیزگی ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا: گھر انسان کے لیے امن و سکون اور رازداری کی جگہ ہے۔ گھر انسان کے وقار، ناموس اور عزت و آبرو کے تحفظ کی جگہ ہے۔ پھر گھر کی چار دیواری کے اندر انسان تمام تکلفات سے آزاد زندگی گزارتا ہے۔ افراد خاندان میں بعض بے تکلفیوں اور کبھی بعض خامیوں کے لیے گھر ایک پردہ ہے۔ اس پردے کا احترام انسانی عزت و وقار کا احترام ہے۔ بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونا احترام آدمیت کے خلاف ہے۔

۲۔ غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ: اپنے گھروں کے علاوہ۔ اس میں اپنے گھر کے علاوہ سب کے گھر شامل ہیں، خواہ اس کے قریبی ترین رشتہ دار کیوں نہ ہوں۔ جیسے ماں باپ، بیٹا، بیٹی اور بھائی۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوتے تھے۔ (الکافی ۵: ۵۲۸)

اس طرح ایک شخص نے رسول اللہؐ سے سوال کیا: کیا میں اپنی ماں کے گھر بلا اجازت داخل ہو سکتا ہوں جب کہ ان کی خدمت کے لیے صرف میں ہوں؟ فرمایا:

اَ یَسُرُّکَ اَنْ تَرَاھَا عُرْیَانَۃٍ ۔

کیا تو اپنی ماں کو عریاں دیکھنا پسند کرے گا؟

کہا: نہیں۔

فرمایا:

فَاسْتَاذِنْ عَلَیْھَا ۔ (مستدرک الوسائل ۱۴: ۲۸۲)

اجازت لیا کرو۔

۳۔ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا: جب تک اُنس پیدا نہ کرو۔ یعنی گھر والے باہر سے آنے والے سے غیرمانوس نہ ہوں۔ گھر میں دفعتاً داخل نہ ہوں جب تک اجازت کے ساتھ گھر والوں میں آنے والے کو قبول کرنے کے لیے آمادگی نہ ہو۔ آیت میں حتی تستاءذنوا جب تک اجازت نہ لو، نہیں فرمایا۔ اذن لینے اور اُنس لینے میں فرق یہ ہے: اذن تو انسان ناگواری کی حالت میں دیتا ہے کہ کوئی بے وقت آیا ہے تو دروازے سے واپس کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا لیکن اُنس تو اس حالت کو کہتے ہیں جس میں گھر والوں میں پوری آمادگی پائی جاتی ہے کہ آنے والے کا استقبال کریں۔

۴۔ وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا: جب تک گھر والوں پر سلام نہ کرو۔ پہلے مانوس، پھر سلام، پھر داخل ہونا۔ یہ ہیں آداب اور تہذیب اسلامی کہ کسی کے گھر میں داخل ہوں تو سلام کر کے داخل ہونا چاہیے۔ دوسری جگہ فرمایا:

فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ ۔ (۲۴ نور:۶۱)

جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کیا کرو۔

۵۔ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ: یہ آداب، یہ تہذیب خود تمہارے لیے بہتر ہے جس سے تمہارا پردہ اور تمہارے راز محفوظ رہتے ہیں اور تمہاری گھر کی چاردیواری کی آزادی بھی متاثر نہیں ہوتی۔

۶۔ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا: گھر میں کسی ایسے فرد کو نہ پاؤ جو تمہیں اجازت دے سکے تو گھر میں داخل نہ ہوں۔جیسے اگر کوئی بچہ ہو یا کوئی اور فرد جو اجازت دینے کا مجاز نہیں ہے۔

۷۔ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا: اگر اجازت دینے سے معذرت کریں تو گھر والوں کا عذر قبول کرو۔ صریح لفظوں میں معذرت کریں یا قرائن سے سمجھ جائیں کہ اجازت دینا نہیں چاہتے ایسی صورت میں واپس جانا چاہیے کیونکہ انسان کبھی کسی مجبوری میں ہوتے ہیں یا ایسی حالت میں ہوتے ہیں جو گھر کا راز ہے۔ عذر قبول کرنا خود اپنی جگہ بزرگواری کی علامت ہے:

شر الناس من لا یقبل العذر ۔۔۔۔ ( غرر الحکم الفصل السادس حول الاعتذارص ۴۴۷)

لوگوں میں بدتر شخص وہ ہے جو عذر کو قبول نہیں کرتا۔


آیات 27 - 28