آیت 26
 

اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں، یہ ان باتوں سے پاک ہیں جو لوگ بناتے ہیں، ان کے لیے مغفرت اور باعزت روزی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلۡخَبِیۡثٰتُ: خبث ، کفر و شرک کی خباثت مراد ہو سکتی ہے۔ اسی طرح طیب سے مراد ایمان وعفت کی پاکیزگی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ فرمایا:

لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجۡعَلَ الۡخَبِیۡثَ بَعۡضَہٗ عَلٰی بَعۡضٍ فَیَرۡکُمَہٗ جَمِیۡعًا فَیَجۡعَلَہٗ فِیۡ جَہَنَّمَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (۸ انفال:۳۷)

تاکہ اللہ ناپاک کو پاکیزہ سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملا کر یکجا کر دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے، (دراصل) یہی لوگ خسارے میں ہیں۔

اس آیت فَیَجۡعَلَہٗ فِیۡ جَہَنَّمَ دلیل ہے کہ خبیث سے مراد کافر ہے۔

لہٰذا آیت کا مطلب یہ بنتا ہے: خبیث عورتوں کا جوڑ خبیث مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی کافر عورتوں کا جوڑ کافر مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح پاکیزہ عورتوں کا جوڑ پاکیزہ مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی مومن عورتوں کا جوڑ مؤمن مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

بعض مفسرین نے کہا ہے:

بری باتیں برے لوگوں کو سجتی ہیں اور اچھی باتیں اچھے لوگوں کو۔

بعض دیگر نے کہا ہے:

برے اعمال برے لوگوں کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور نیک اعمال نیک لوگوں کے لیے مناسب ہیں۔

پہلا معنی زیادہ سیاق آیت سے مربوط ہے چونکہ آخر میں فرمایا ہے: اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ ۔ یہ لوگ ان باتوں سے پاک ہیں۔ یہ دلیل ہے کہ طیب سے مراد افراد و اشخاص ہیں، اقوال و افعال نہیں۔

یہ آیت بھی اَلزَّانِیۡ لَا یَنۡکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً ۔۔۔ کی طرح ہے۔

آیت کا سبب نزول مسئلہ افک سے مربوط لگتا ہے تاہم لفظ کی عمومیت کی وجہ سے ہر مؤمن مرد و عورت اور غیر مؤمن مرد و عورت سب شامل ہیں۔

اہم نکات

۱۔ حقیقی کفو وہ ہے جو نظریات و عقیدے پر مبنی ہو۔


آیت 26