آیت 25
 

یَوۡمَئِذٍ یُّوَفِّیۡہِمُ اللّٰہُ دِیۡنَہُمُ الۡحَقَّ وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ الۡمُبِیۡنُ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اس دن اللہ ان کا حقیقی بدلہ پورا کرے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے (اور حق کا) ظاہر کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

یُّوَفِّیۡہِمُ:

( و ف ی ) وفا ، پورا کرنا۔ يُّوَفِّيْہِمُ ان کو پورا کر دے گا۔

دِیۡنَہُمُ:

دین، جزا اور بدلہ کے معنوں میں ہے جیسا کہ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ میں ذکر ہو چکا۔

تفسیر آیات

۱۔ قیامت کے دن اللہ ہر ایک کو اس کا حقیقی اور واقعی بدلہ دے گا۔ دِیۡنَہُمُ الۡحَقَّ یعنی جزائہم الواقعی ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ جزا، سزا قراردادی نہیں ہے کہ کسی کی طرف سے مقرر کرنے پر تقرر ہوتی ہے بلکہ جزا و سزا ایک امر واقعی ہے جو انسانی عمل پر مترتب ہوتا ہے۔ جس طرح دنیا میں بہت سے فیزیکل مسائل ایسے ہیں کہ انسانی عمل پر خود بخود مترتب ہوتے ہیں۔ مثلاً صحت کے مسائل ایسے نہیں ہیں کہ کسی کی طرف سے تجویز ہونے پر مقرر ہوئے ہوں بلکہ انسانی عمل پر خود بخود مترتب ہوتے ہیں۔

۲۔ وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ الۡمُبِیۡنُ: قیامت کے دن جب انسان واقع بینی کے عالم میں داخل ہو گا تو اسے جہاں اپنے اعمال کا حقیقی بدلہ نظر آئے گا وہاں تمام حقائق کھل کر سامنے آ جائیں گے:

لَقَدۡ کُنۡتَ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ (۵۰ ق:۲۲)

بے شک تو اس چیز سے غافل تھا چنانچہ ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے لہٰذا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔

ان حقائق میں سب سے اہم، معرفت الٰہی ہو گی جو انتہائی ظہور کی وجہ سے پوشیدہ تھی۔ دنیا میں ہر چیز اس کی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ روشنی تاریکی سے، ظلم عدل سے۔ اللہ تعالیٰ کی کوئی ضد نہیں ہے لہٰذا اللہ کا ظہور سب سے زیادہ ہے۔ انتہائی ظہور کی وجہ سے پردۂ خفا میں تھا۔ آخرت کے دن اللہ کی معرفت کامل ہو جائے گی: ہُوَ الۡحَقُّ الۡمُبِیۡنُ ۔

اہم نکات

۱۔ بدلہ عمل پر خود مترتب ہوتا ہے۔


آیت 25