آیت 17
 

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعَ طَرَآئِقَ ٭ۖ وَ مَا کُنَّا عَنِ الۡخَلۡقِ غٰفِلِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور بتحقیق ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے ہیں اور ہم تخلیقی کارناموں سے غافل نہیں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ سَبۡعَ: سے سات آسمان مراد ہو سکتے ہیں۔ اس پر فَوۡقَکُمۡ قرینہ ہے۔ طَرَآئِقَ سے راستہ مراد لینا قرین واقع معلوم ہوتا ہے چونکہ بعد کا جملہ وَ مَا کُنَّا عَنِ الۡخَلۡقِ غٰفِلِیۡنَ سے ربط اسی صورت میں قائم ہوتا ہے۔ بعض نے طَرَآئِقَ سے دوسرے معانی مراد لیے ہیں جو بعد کے جملے سے مربوط نہیں ہوتے۔

سات آسمانوں کو طَرَآئِقَ (راستے) کہنے کی وجہ ممکن ہے یہ ہو: زمین پر آنے والے تدبیری امور آسمانوں سے آتے ہیں:

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ۔۔۔ (۳۲ سجدہ: ۵)

وہ آسمان سے زمین تک کے امور کی تدبیر کرتا ہے۔

وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا ۔۔۔۔ (۴۱ فصلت:۱۲)

اور ہر آسمان میں اس کا حکم پہنچا دیا۔

تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ (۹۷ قدر: ۴)

فرشتے اور روح اس شب میں اپنے رب کے اذن سے تمام (تعیین شدہ) حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔

اس سے یہ اشارہ معلوم ہو سکتا ہے کہ زمین کی تدبیر کا تعلق ساتوں آسمانوں سے ہے۔ یعنی زمین اور تمام آسمان باہم ایک ہی تدبیر کے ساتھ مربوط ہیں۔ کائناتی شعاعیں، ستاروں کی روشنی، اہم تدبیری امور ہیں۔

۲۔ وَ مَا کُنَّا عَنِ الۡخَلۡقِ غٰفِلِیۡنَ: کائنات کو خلق کر کے اللہ نے اسے اپنے حال پر نہیں چھوڑا بلکہ کائنات وجوداً وبقاً، اللہ کی محتاج ہے۔ کل کائنات کی تدبیر سے اللہ غافل نہیں ہو سکتا۔ انسان کے اعمال و کردار، مخلوقات کی حفاظت اور اس کے لیے روزی کی فراہمی پر اس کی نظر ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم تخلیقی اور تدبیری عمل سے غافل نہیں ہیں: کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ (۵۵ رحمٰن: ۲۹) نیز آسمانوں کو راستے کہنے یا ہمارے اوپر سات راستے سے کیا مراد ہے؟ اس کا علم آنے والے نسلوں کے لیے ہو سکتا ہے ممکن ہو، آج کا انسان ابھی اس میدان کا طفل مکتب بھی نہیں ہے۔


آیت 17