آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ المؤمنون

یہ سورۃ مبارکہ مکہ میں نازل ہوئی بعض کا خیال ہے کہ یہ سورۃ مدنی ہے چونکہ اس میں زکوٰۃ کا ذکر ہے اور زکوٰۃ کا حکم مدینہ میں نازل ہوا ہے۔ جو اب یہ ہے کہ زکوٰۃ بمعنی انفاق ہے جس کا ذکر دیگر مکی سورتوں میں موجود ہے۔ بعض یہ جواب دیتے ہیں کہ زکوٰۃ کا حکم مکہ میں نازل ہوا تھا۔ بعض محققین کا اندازہ ہے کہ یہ سورۃ بعثت کے آٹھواں سال میں نازل ہوئی ہے۔ سورۃ میں آیات کی تعداد کو فی قرائت کے مطابق ایک سو اٹھارہ آیات ہیں۔ یہ قرائت معتبر ہے چونکہ اس قرائت کا مصدر حضرت مولائے متقیان علی علیہ السلام ہیں۔

اس سورۃ مبارکہ کی ابتداء مؤمنین کے اوصاف سے ہوئی ہے اس لیے اس کا نام (سورۃ المؤمنون) ہوگیا اس میں وہ اوصاف بیان ہوئے جن کے حامل مؤمنین ہی فلاح پائیں گے۔ فلاح پانے کے ضامن اوصاف کی ابتداء نماز میں خشوع سے ہوتی ہے اور نماز کی حفاظت پر ختم ہوتے ہیں۔

اس کے بعد انسان کی خلقت کے مراحل کا ذکر ہے۔ پھر تدبیر حیات کے سلسلے میں زمین سے روئیدگی کا ذکر ہے اس سورۃ مبارکہ میں برزخ کا ذکر ہے جو موت سے لے کر قیام قیامت کا وقفہ ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾

۱۔ وہ ایمان والے یقینا فلاح پا گئے

تفسیر آیات

۱۔ قبولیت اعمال کے لیے سب سے پہلی شرط ایمان ہے۔ اگر دل میں ایمان کا محرک موجود نہ ہو تو انسان کے اعضاء سے عمل کا ثبوت پیش نہیں ہو سکتا، بالکل اسی طرح اگر عمل کی دلیل پیش نہ کی جائے تو ایمان کا ثبوت نہیں ملتا۔


آیت 1