آیت 97
 

وَ اقۡتَرَبَ الۡوَعۡدُ الۡحَقُّ فَاِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ اَبۡصَارُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ یٰوَیۡلَنَا قَدۡ کُنَّا فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا بَلۡ کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اور برحق وعدہ قریب آنے لگے گا تو کفار کی آنکھیں یکایک کھلی رہ جائیں گی، (وہ کہیں گے) ہائے ہماری تباہی! ہم واقعی اس سے غافل تھے، بلکہ ہم تو ظالم تھے ۔

تشریح کلمات

شَاخِصَۃٌ:

( ش خ ص ) الشخص: کھڑے انسان کو کہتے ہیں۔ شخص بصرۂ اس کی آنکھیں پتھرا گئی۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اقۡتَرَبَ الۡوَعۡدُ الۡحَقُّ: وعدہ حق سے مراد قیامت ہے یعنی قیامت کے قریب وقوع پذیر ہونے والے حالات ایسے ہوں گے جن کو دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

وَ اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا (۱۷ بنی اسرائیل:۵۸)

اور کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب میں مبتلا نہ کریں، یہ بات کتاب (تقدیر) میں لکھی جا چکی ہے۔

حدیث رسولؐ میں آیا ہے:

قیامت سے پہلے دس علامات ظاہر ہوں گی۔ سورج کا مغرب سے طلوع کرنا، دجال اور دابۃ الارض کا ظہور، تین جگہوں پر زمین کا دھنس جانا، ایک مغرب میں، ایک مشرق میں، ایک جزیرۃ العرب میں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خروج اور یاجوج و ماجوج کا خروج۔ (بحار الانوار ۱: ۳۰۴ و صحیح مسلم)

۲۔ فَاِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ: قیامت کے قریب رونما ہونے والے حوادث کو دیکھ کر کافر کی آنکھیں دہشت زدہ ہو کر پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

۳۔ یٰوَیۡلَنَا قَدۡ کُنَّا فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا: دنیا میں تو غافل رہے، جب عذاب سامنے آیا ہے تو بیدار ہو گئے۔ فرصت کے دنوں میں ان باتوں کو اعتنا میں نہیں لاتے تھے۔ آج ہوش میں آ گئے ہیں۔

۴۔ بَلۡ کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ: غفلت ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر قیامت کے تصور کو ذہن سے دور پھینک دیتے تھے۔ آج دیکھا کہ اپنے اوپر کس قدر ظلم کر رکھا ہے۔

اہم نکات

۱۔ فرصت ہاتھ سے جانے سے پہلے قیامت کی تیاری کرنی چاہیے۔

۲۔ غفلت اور ظلم سے بچنا ہی تیاری ہے۔


آیت 97