آیت 92
 

اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۫ۖ وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡنِ﴿۹۲﴾

۹۲۔ یہ تمہاری امت یقینا امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا تم صرف میری عبادت کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ تمام انسانوں کا رب ایک ہے تو لازماً سب انسان ایک ہی امت ہیں۔ سب اللہ کی بندگی میں ایک جیسے ہیں۔ تمام انبیاء علیہم السلام اسی ایک رب کی طرف بلانے آئے ہیں۔

اُمَّتُکُمۡ ایسی جماعت کو کہتے ہیں جو ایک رشتے میں باہم منسلک ہوں۔

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔

وَ مِمَّنۡ خَلَقۡنَاۤ اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ ۔۔۔ (۷ الاعراف: ۱۸۱)

اور جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے۔

تمام انسان، انسانیت میں ایک ہیں۔ مخلوقیت میں ایک ہیں، بندگی میں ایک ہیں، سب کا رب ایک ہے، سب کا مدبر ایک ہے، سب کا رازق ایک ہے اور سب کی فطرت ایک ہے۔

وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخۡتَلَفُوۡا ۔۔ (۱۰ یونس:۱۹)

اورسب انسان ایک ہی امت تھے پھر اختلاف رونما ہوا۔

۲۔ وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡنِ: میں تمہارا رب ہوں پس میری عبادت کرو۔ آیت کے اس جملے سے عبادت کی تعریف نکل آتی ہے کہ عبادت صرف رب کی ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی آیت میں ’’میری عبادت کرو‘‘ کے لیے اَنَا رَبُّکُمۡ کو بنیاد بنایا کہ چونکہ میں تمہارا رب ہوں لہٰذا صرف میری عبادت کرو۔ لہٰذا عبادت کی تعریف یہ ہے کہ کسی ذات کو رب یا خالق سمجھ کر اس کی تعظیم کرنا عبادت ہے۔ ہر تعظیم عبادت نہیں ہے۔


آیت 92