آیت 261
 

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۶۱﴾

۲۶۱۔ جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سے ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے، اللہ بڑا کشائش والا، دانا ہے۔

تفسیر آیات

انفاق اور فیاضی ایک کائناتی اصول ہے، جس پر نظام کائنات استوار ہے۔ سورج اپنے حیات بخش نور کا فیض پہنچاتا ہے۔ پانی اپنی طراوت سے نوازتا ہے۔ ہوا اپنی تازگی سے فرحت بخشتی ہے اور زمین بھی جب اپنی آغوش میں مہر و محبت سے لبریز ماحول فراہم کرتی ہے تو دانہ بھی فیاضانہ جذبے کے تحت اپنا سینہ چاک کر دیتا ہے۔

اس مقام پر مسلسل اور متعدد آیات کے ذریعے امت قرآن کو انفاق فی سبیل اللّٰہ کی ہدایات دی جا رہی ہیں تاکہ ایک ایسی امت تشکیل دی جا ئے جو خدا کی پسندیدہ انسانی و اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ اقتصادی و باہمی تعاون کی اقدار پر بھی قائم ہو۔ اسلام سے پہلے غریب طبقہ سود اور استحصالی نظام میں پس رہا تھا۔ اسلام نے اس طبقے کو اقتصادی غلامی سے نجات دلا کر اس کے انسانی احترام کو بحال کر نے کے لیے انفاق پر زور دیا۔ ایسا انفاق جو محبت و اخوت کی فضا میں ہو نیز جو انفاق کرنے والے کے لیے تہذیب نفس اور لینے والے کے لیے باوقار ذریعہ زندگی ہو۔ ان آیات میں انفاق کی افادیت، آداب اور اس کے نفسیاتی پہلوؤں پر مشتمل ایک دائمی دستور موجود ہے، جس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں امت مسلمہ ایک ہی خاندان کی مانند ہو جاتی ہے، جس کے تمام افراد ہر اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔

چنانچہ اسی ذہنیت کی تخلیق اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اسلام نے ربا اور سود کا دروازہ بند کر کے انفاق کا دروازہ کھولا اور انفاق کے بہت سے شعبے قائم کیے۔ مثلاً زکوٰۃ، خمس، مالی کفارے، مستحب صدقات و خیرات وقف، ہبہ، قرض حسنہ اور فدیہ وغیرہ۔

ذاتی ضروریات، اہل و عیال کی جائز ضروریات، حاجتمندوں کی امداد، رفاہ عامہ کے امور اور دین کی اشاعت پرخرچ کرنا وغیرہ، انفاق فی سبیل اللہ کے زمرے میں شامل ہیں۔

اس آیت میں حاکمانہ انداز میں نہیں، بلکہ تشویق و ترغیب کی صورت میں انفاق کا درس دیا جا رہا ہے۔ قرآن ایک نہایت ہی منافع بخش مادی و محسوس مثال پیش فرماتا ہے کہ دانے کا زمین میں ڈالنا اس دانے کا اتلاف نہیں، بلکہ ایک منافع بخش عمل ہے۔ جس طرح مادی دنیا میں بیج کا ایک دانہ سات سو دانے دے سکتا ہے، بالکل اسی طرح راہ خدا میں خرچ کرنے سے بھی مال ضائع نہیں ہوتا، بلکہ خرچ کرنے والا سات سو گنا ثواب کی شکل میں اسے دوبارہ وصول کرتا ہے۔ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ کے تحت ایک ہزار چار سو گنا ہو سکتا ہے۔ مال کے انفاق کا یہ خاصہ ہے کہ ایک ہزار چار سو گنا ثواب مل سکتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ، جتنا خدا چاہے۔

اہم نکات

۱۔ کائنات کے وجود میں آنے کا سبب اللہ تعا لیٰ کی فیاضی ہے۔ پس بقائے کائنات بھی فیاضی پر موقوف ہے۔

۲۔ الٰہی اقدار کے مطابق انفاق سات سو (۷۰۰) گنا سے زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتا ہے: سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔۔

۳۔ انفاق معاشرے کو اقتصادی بدحالی اور غلامی سے نجات دلاتا ہے۔

تحقیق مزید: بحار الانوار ۹۳ : ۱۴۱ باب ۱۵ اداب الصدقۃ۔ سعد السعود ۱۹۵۔


آیت 261