آیت 256
 

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۵۶﴾

۲۵۶۔ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ سے مراد یہ ہے کہ دین کے قبول کرنے یا اسے رد کرنے میں جبر جائز نہیں ہے۔ اسلام جہاں کسی دین کی قبولیت میں جبر و اکراہ کو جائز نہیں سمجھتا، وہاں اسے رد کرنے کے لیے بھی جبر کو ناجائز سمجھتا ہے۔ اسلام احترام آدمیت کے تحت عقیدے کی آزادی کا حامی ہے۔

اسلام دین فطرت اور دین عقل و منطق ہے۔ اس فطری دعوت کا خطاب فکر و ادراک اور عقل و فہم سے ہے۔ دعوت اسلام جسم کو نہیں، عقل و ادراک کو جھنجوڑتی ہے۔ اسلام طاقت کی زبان سے نہیں بلکہ منطق اور فکر و تعقل کی زبان سے بات کرتا ہے۔ اس کا مدعی ایمان ہے اور ایمان امر قلبی ہے۔ دل جبر و اکراہ کے آگے نہیں جھکتا۔ دل طاقت کی زبان نہیں سمجھتا۔ جبر کے آگے گردنیں کٹ جاتی ہیں، مگر دل خم نہیں ہوتا۔ طاقت اور جبر سے افعال و حرکات کو قابو میں لایا جا سکتا ہے، لیکن اعتقادات و نظریات کو نہیں۔ اعتقاد و ایمان کو قابو میں لانے کے اسباب اور وسائل دوسرے ہیں۔ طاقت کے ذریعے ایمان و عقیدے کی توقع بالکل اسی طرح ہے جیسے جہالت کے ذریعے علم اور تاریکی سے روشنی کی توقع رکھی جائے۔

اسلامی جہاد کا مطلب وہ نہیں جو اسلام دشمن عناصر نے لیا ہے۔ ان کے بقول اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے او را سلامی دعوت میں جبر و اکراہ شامل رہا ہے۔ حالانکہ اسلام نے جب ایک ضابطہ قائم کر دیا: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ تو اپنی دعوت کو قبول کرانے کے لیے وہ طاقت اور جبر کو استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی اس دعوت کے مد مقابل کھڑی ہونے والی طاقت اور جبر کو قبول کرتا ہے۔

اسلام کا جہاد ان لوگوں کے خلاف ہے جو اس آزادی کو سلب کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اسلام کا جہاد فکر و عقیدے کی آزادی سلب کرنے کے لیے نہیں ہے (جیسا کہ اسلام دشمن عناصر نے مشہور کر رکھا ہے)، بلکہ اس کا جہاد سلب شدہ آزادی کے حصول کے لیے ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام نے اپنے عقیدے کو مسلط کرنے کے لیے طاقت استعمال نہیں کی، بلکہ عقیدے کے سامنے آنے والی طاقت کے خلاف طاقت استعمال کی ہے۔ تیسرے لفظوں میں: اسلام خود جبر نہیں کرتا، جبر کے خلاف جہاد کرتا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے ہر قسم کے مذاہب و ادیان کو برداشت کیا ہے اور انہیں مکمل آزادی دی ہے۔

عالمی ادیان و مذاہب میں صرف اسلام ہے جو احترام آدمیت کی بنیاد پر عقیدے و مذہب کی آزادی جیسے انسانی کا حقوق کا حامی ہے۔ ادیان عالم کی فضا میں پہلی بار اسلام کی طرف سے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ کی آواز گونجی ہے۔ اسلام نے عقیدے کی بنیاد پر جبر و تشدد کو ناجائز قرار دیاہے۔

اسلام کی دعوت کا رخ چونکہ عقل ومنطق اور فہم و ادراک کی طرف ہے، لہٰذا قرآن فرماتا ہے کہ یہ کام انجام پا گیا یعنی قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ہدایت اور ضلالت میں امتیاز نمایاں ہو چکا۔ عقل و ادارک کے سامنے حق و باطل میں امتیاز ہو چکا۔ جس چیز سے ایمان و عقیدہ وجود میں آ سکتا ہے، وہ فراہم کر دی گئی:

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ۔ {۵۰ ق: ۳۷}

اس میں ہر صاحب دل کے لیے یقینا عبرت ہے جو کان لگا کر توجہ سے سنے اور(اس کا دل) حاضر ہو۔

زندہ اور آگاہ دلوں کو بتایا گیا کہ رشد و ہدایت کیا ہے اور کفر و ضلالت کیا ہے۔ اب اگر کوئی ضلالت یعنی طاغوت کا انکار کرتا ہے اور عقل و فطرت کے راستے سے منحرف ہونے والوں سے برائت کر کے ایمان باللہ کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے تو گویا اس نے ایک ایسے وسیلے کو تھام لیا جو نجات کا ضامن ہے: لَا انۡفِصَامَ لَہَا یہ نہ ٹوٹنے والا وسیلہ ہے۔

احادیث

کافی میں عبد اللہ بن سنان حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا:

ھِیَ اَلْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ۔ {اصول الکافی ۲ : ۱۴}

فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی سے مراد خدائے وحدہ لا شریک پر ایمان ہے۔

عبد اللہ بن عباس راوی ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَتَمَسَّکَ بَالْعُرْوَۃِ الْوُثْقیٰ الَّتِیْ لَا انْفِصَامَ لَھَا فَلْیَتَمَسَّکَ بِوَلَایَۃِ اَخِیْ وَ وَصِیِّیٖ عَلِیِّ بْنِ اِبِیْ طَالِب فَاِنَّہٗ لَا یَھْلِکُ مَنْ اَحَبَّہٗ وَ تَوَلَّاہُ وَ لَا یَنْجُوْ مَنْ اَبْغَضَہٗ وَ عَادَاہُ ۔ {معانی الاخبار ص ۳۶۸۔ بحار الانوار ۳۸: ۱۲۱}

جو نہ ٹوٹنے والی مضبوط رسی کو تھامنا چاہتا ہے وہ میرے بھائی اور وصی علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت و محبت کو اختیار کرے۔ کیونکہ جو علی (ع) سے محبت کرتا ہے وہ ہلاکت میں نہیں پڑتا اور جو اس سے بغض رکھتا ہے وہ نجات حاصل نہیں کر سکتا۔

اہم نکات

۱۔ دین کو عقل و منطق کی بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔ اسلام دین کو قبول یا رد کرنے میں جبر کا قائل نہیں: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۔۔۔۔

۲۔ جن لوگوں نے دین کو رد کرنے کے لیے طاقت استعمال کی، اسلام نے اس طاقت کے خلاف طاقت استعمال کی ہے۔ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۔۔۔۔

۳۔ نظریاتی آزادی اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے اور جہاد کا مقصد اسی آزادی کا تحفظ ہے۔

۴۔ ایمان باللہ اور طاغوت کا انکار مذہبی آزادی کا ثمرہ اور انسانی فلاح کا مضبوط ترین وسیلہ ہے: فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ ۔۔۔۔

۵۔ طاغوت کی نفی کیے بغیر ایمان باللہ ممکن ہی نہیں ہے: فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ ۔

تحقیق مزید:

الکافی ۲: ۱۴۔ بحار الانوار ۸: ۷۰، ۲۴: ۸۳۔ ۸۴ بصائر الدرجات بحوالہ بحار الانوار ۲۵: ۱۴۶


آیت 256