آیت 214
 

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ﴿۲۱۴﴾

۲۱۴۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟(انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔

تفسیر آیات

یہاں خطاب مسلمانوں سے ہے۔ خدا اپنے برگزیدہ بندوں کو جن تربیتی مراحل سے گزارتا ہے، ان کی نشاندہی فرما رہا ہے نیز یہاں ایک غلط تصور کا ازالہ بھی مقصود ہے۔

غلط تصور: عام تصور یہ ہے کہ لوگ صرف ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کو ہر چیز کے لیے کافی سمجھتے ہیں حتیٰ کہ طبیعی علل و اسباب کے لیے بھی اپنے ایمان و اسلام سے توقع رکھتے ہیں کہ بغیر کوشش کیے مفت میں کامیابی مل جائے گی۔

الٰہی سنت یہ رہی ہے کہ مفت میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اگر مفت میں ملے توسب کو ملنی چاہیے اور سب کو ملے تو بغیر استحقاق اور اہلیت کے بھی ملنی چاہیے اور یہ ایک عبث کام بن جاتا ہے۔ اس لیے حکمت الٰہی کے تحت ضروری ہوا کہ کامیابی کے راستوں کو دشوار بنا دیا جائے اور تمام کامیابیوں کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہو۔ پھرجنت اور ابدی زندگی کے حصول کے لیے آزمائش اور امتحان کے کٹھن مراحل سے گزرنا اور ایسی مشکلات اور تکالیف کا مقابلہ ضروری ہو جہاں کھرے اور کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے اور سچے اہل ایمان دوسروں سے جدا ہو جاتے ہیں اور صرف صبر و تحمل کرنے والے ہی اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ البتہ وہ بھی اتنی تکلیف دہ اور طاقت فرسا مشکلات کے بعد کہ رسول جیسی ہستی اور مؤمنین اللہ کی نصرت کے لیے چیخنے پر مجبور ہو جاتے ہیں : ’’اللہ کی نصرت کب آئے گی؟‘‘ تاکہ استحقاق اور اہلیت کے حامل افراد ہی مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ سے آگے کامیابی کی حقیقی منزل کو پا سکیں۔ آیت سے ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے جن سے مؤمنین کو آزمایا جاتا ہے۔ فلسفہ امتحان پر ہم اس سے پہلے تحریر کر چکے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ راہ خدا میں مشکلات اور کٹھن آزمائش سے گزرے بغیرجنت کی خواہش خام خیالی ہے: اَمۡ حَسِبۡتُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ آزمائش خدا کا ایک دائمی قانون ہے جس سے ہرشخص کو گزرنا ہو گا۔

۳۔ نصرت خداوندی، آزمائش میں آخر دم تک ثابت قدمی کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے: مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ۔

تحقیق مزید: غیبۃ الطوسی ص ۴۵۸، مکارم الاخلاق ۴۴۶، منتخب الانوار ص ۳۲۔


آیت 214