آیت 150
 

وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ ۙ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَیۡکُمۡ حُجَّۃٌ ٭ۙ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ ٭ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِیۡ ٭ وَ لِاُتِمَّ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۵۰﴾ۙۛ

۱۵۰۔اور آپ جہاں کہیں سے بھی نکلیں اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑیں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ اسی (کعبے) کی طرف کرو تاکہ ان میں سے ظالموں کے علاوہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے، لہٰذا تم ان سے نہیں صرف مجھ ہی سے ڈرو تاکہ میں تم پر اپنی نعمتیں پوری کروں اور شاید تم ہدایت پاؤ۔

تشریح کلمات

حُجَّۃٌ:

(ح ج ج) اس دلیل کو کہا جاتا ہے جو صحیح مقصد کی وضاحت کرے۔

خَشیَۃ:

(خ ش ی) وہ خوف جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہو جائے۔

تفسیر آیات

تحویل قبلہ کو اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں بیان فرما کر کسی شک و تردید کی گنجائش نہیں چھوڑی اور مؤمنین کو مطمئن اور معاندین کو مایوس کر دیا۔ یہ بے جا تکرار نہیں ہے، بلکہ ہر آیت میں تحویل قبلہ کے حکم کے ساتھ ایک نیا مطلب بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر رسول اکرم (ص) کی دو احادیث ’’نماز معراج مومن ہے‘‘ اور ’’نماز دین کا ستون ہے‘‘ میں نماز کے ذکر کا تکرار نہیں، بلکہ ہر بار نماز کے ذکر کے ساتھ ایک نیا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ بعینہ اسی طرح مختلف آیات میں تحویل قبلہ کے مکرر ذکر کے ساتھ مختلف مفاہیم کو بیان فرمایاگیا ہے، جو درج ذیل ہیں:

۱۔ تحویل قبلہ میں مضمر حکمت و فلسفہ۔

۲۔ تحویل قبلہ کے سلسلے میں رسول اکرم (ص) کا انتظار اور آپ (ص) کی خواہش کے مطابق تحویل قبلہ کا حتمی فیصلہ۔

۳۔ تحویل قبلہ کے بارے میں اہل کتاب کا غیر منطقی مؤقف اور ان کی ہٹ دھرمی۔

۴۔ رسول اسلام (ص) کے قبلے کی حقانیت۔

۵۔ آخری آیت میں درج ذیل نکات کی طرف اشارہ فرمایا گیا:

الف: تحویل قبلہ یہودیوں کے اس طعنے کا عملی جواب ہے: ’’اگرمسلمان ہمارے قبلے کو تسلیم کرتے ہیں تو دیگر اعمال میں ہم سے الگ راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں اور اگر محمد (ص) دین یہودیت و نصرانیت پر نہیں ہیں تو پھر ہمارے دین کا قبلہ کیوں اختیار کرتے ہیں؟‘‘

اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں کے پاس حجت اور دلیل آگئی جو یہودیوں کے اعتراض کا دندان شکن جواب بن گئی۔ البتہ ہٹ دھرمی اور تعصب برتنے والے پھر بھی غیر منطقی اعتراضات اٹھاتے رہیں گے جن کی کوئی پرواہ نہیں۔

ب۔ اس حکم کے بعد تکمیل دین کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی اور مسلمانوں پر اللہ کی نعمتیں پوری ہو جائیں گی۔

ج۔ اس امت کو اللہ کی طرف سے ہدایت کی عظیم نعمت بھی نصیب ہوگی۔ سورۂ حمد کی تفسیر میں ہدایت کی تفسیر بیان ہو چکی ہے کہ انسان ہر لمحہ محتاج ہدایت ہے اور اللہ کا فیض کبھی منقطع نہیں ہوتا۔

تحویل قبلہ کے بعد اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ آیات اگرچہ تحویل قبلہ کے حکم پر مشتمل ہیں اور بظاہر تکرار معلوم ہوتی ہیں، لیکن فی الواقع تکرار نہیں بلکہ ہر آیت ایک الگ دلیل اور نکتے پر مشتمل ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی الفاظ و عبارات میں تکرار کے اندر خدا ئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔

۲۔ باطل اپنے تعصب کی بنا پر ہمیشہ غیرمنطقی اعتراضات کے ذریعے حق کو ختم کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف رہتا ہے: لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَیۡکُمۡ حُجَّۃٌ ٭ۙ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ ۔۔۔


آیت 150