آیات 58 - 59
 

وَ اِذۡ قُلۡنَا ادۡخُلُوۡا ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃَ فَکُلُوۡا مِنۡہَا حَیۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَدًا وَّ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ سَنَزِیۡدُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا: اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور فراوانی کے ساتھ جہاں سے چاہو کھاؤ اور (شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو: گناہوں کو بخش دے تو ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور ہم نیکوکاروں کو زیادہ ہی عطا کریں گے۔

فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ فَاَنۡزَلۡنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿٪۵۹﴾

۵۹۔ مگر ظالموں نے اس قول کو جس کا انہیں کہا گیا تھا دوسرے قول سے بدل دیا تو ہم نے ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا کیونکہ وہ نافرمانی کرتے رہتے تھے۔

تشریح کلمات

الْقَرْيَۃَ:

( ق ر ی ) بستی، قصبہ۔ شہر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ قَرَی سے ماخوذ ہے، جس سے مراد ہے جمع ہونا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا۔

اس آیت میں بستی سے مراد ’’ بیت المقدس ‘‘ یا اس کے نزدیک کوئی بستی یا شہر ہے، جس پر حضرت موسیٰ (ع) یا ان کے بعد بنی اسرائیل نے قبضہ کیا تھا۔

حِطَّۃٌ:

( ح ط ط ) گناہوں کا جھاڑنا، اترنا، بوجھ کو زمین پر رکھنا۔

غَفَر:

( غ ف ر ) بخش دینا، چھپانا، پر کرنا۔

خَطَایا:

( خ ط ی ) خطیئۃ کی جمع۔ گناہ، لغزش۔

مقصد اور ارادے سے گناہ کیا جائے تو اسی خطیئۃ اور اگر بلا ارادہ گناہ سرزد ہو تو خطا کہتے ہیں۔

رِجۡزًا:

( ر ج ز ) عذاب، پلیدی، کڑک کی آواز۔

تفسیر آیات

چالیس سال کی سزا کاٹنے کے بعد جب انہیں اس ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم ملا تو ان سے صرف یہ کہا گیا کہ داخل ہوتے وقت اپنے گناہوں سے توبہ کرنا: وَّ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ ، لیکن انہوں نے حِطَّۃٌ ’گناہ بخش دے‘ کی بجائے حِنْطَۃٌ ’گیہوں‘ کہ کر حکم خدا کا مذاق اڑایا۔

بنی اسرائیل کی زبان عبرانی تھی اور حِطَّۃٌ کا لفظ عربی ہے۔ چنانچہ ہو سکتا ہے کہ اظہار توبہ کے لیے حِطَّۃٌ کا ہم معنی لفظ کہنے کا حکم دیا گیا ہو۔

الۡبَابَ سے مراد شاید بیت المقدس کا دروازہ ہو جسے آج بھی باب حطۃ کہا جاتا ہے۔

اس واقعے کی تفصیل سورئہ مائدہ آیہ ۲۰ تا ۳۶ میں آئے گی۔

اہل البیت (ع) سے مروی حدیث نبوی (ص) میں مذکور ہے:

اِنَّ عَلِیًّا سَفِیْنَۃُ نَجَاتِہَا وَ بَابُ حِطَّتِھَا ۔ {تفسیر نور الثقلین ۱ : ۸۲۔ بحار الانوار ۳۸ : ۱۱۲}

بے شک علی (ع) اس امت کے لیے کشتی نجات اور باب حطہ ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے:

نَحْنُ بَابُ حِطَّتِکُمْ ۔ {نور الثقلین ۱ : ۸۳۔ بحار الانوار ۱۳ : ۱۶۸}

ہم تمہارے لیے باب حطہ ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی نعمتوں سے استفادہ کرنا منشائے خداوندی ہے۔

۲۔ مخصوص الفاظ، اجابت دعا میں مؤثر ہیں: قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ ۔۔۔

تحقیق مزید: امام علی علیہ السلام باب حطہ ہیں۔الکافی ۸ : ۲۹۔ الدرالمنثور ۱ : ۱۳۹۔ امالی الصدوق ص ۷۴۔ امالی الطوسی ص ۶۰۔امالی مفیدص ۱۴۵۔ التوحید ص ۱۶۴


آیات 58 - 59