آیت 57
 

وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡغَمَامَ وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی ؕ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا، ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں اور وہ ہم پر نہیں بلکہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔

تشریح کلمات

الۡغَمَامَ:

( غ م م ) بادل، جو آسمان کو ڈھانپ دے۔ ابر کا ٹکڑا ہو تو اسے غَمَامہ کہتے ہیں اور اگر بارش برسائے تو اسے سَحَاب کہتے ہیں۔ غَم اس اندوہ کو کہتے ہیں جو قلب انسان کو ڈھانپ لیتا ہے۔

الۡمَنَّ:

( م ن ن ) وہ احسان جو کسی ایسے پر کیا جائے جس کا وہ سزاوار نہ ہو: اِذَا کُفِّرَتِ النِّعْمَۃُ حَسُنَتِ الْمَنَّۃُ ۔’’ جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان جتانا درست ہوتا ہے۔‘‘

یہاں پر مَن سے مراد وہ خاص غذا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل پر نازل فرمائی۔ مَن کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً میٹھا گوند، شہد، شربت، ترنجبین (شہد کی طرح گاڑھی، لذیذ اور شبنم کی طرح صاف)۔ بقول توریت مَن اوس کی شکل میں گرتی تھی۔

السَّلۡوٰی:

( س ل و ) لفظی معنی تسلی اور آسائش کے ہیں: فلان فی سلوۃ من العیش ’’ فلان شخص آرام کی زندگی گزار رہا ہے ‘‘۔

یہاں پر یہ لفظ ان پرندوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے لیے بھیجے تھے۔ یہ پرندے بٹیروں سے ملتے جلتے تھے۔

تفسیر آیات

اس آیت میں ان انعامات کاذکر ہے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل کو صحرائے سینا کی دھوپ اور فاقوں سے نجات ملی۔

ہو سکتا ہے کہ بنی اسرائیل کو صحرائے سینا کی دھوپ کی تپش سے محفوظ رکھنے کے لیے عطا ہونے والا ابر کا سایہ کوئی معجزانہ سایہ نہ ہو، بلکہ اللہ کی عام نعمتوں کی طرح ہو۔ لیکن آیات کے لب ولہجے سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ابر کا سایہ بھی معمول سے ہٹ کر ایک خصوصی انعام تھا، جو بنی اسرائیل سے مختص تھا۔ ورنہ عمومی لحاظ سے صحرائے سینا میں کوئی ایسا بلند پہاڑ نہیں جس سے سمندر کے آبی بخارات ٹکرا کر بادل کی صورت میں بنی اسرائیل پر چھائے رہتے۔ اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرائیل چالیس سال تک اس صحرا میں بھٹکتے رہے: قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۔۔۔ {۵ مائدہ :۲۶} ترجمہ: اللہ نے فرمایا: وہ ملک ان پر چالیس سال تک حرام رہے گا، وہ زمین میں سرگرداں رہیں گے۔۔۔۔ لہٰذا بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بادلوں نے چالیس سال تک ان پر سایہ کیے رکھا۔

تفسیر البرہان ج ۱ صفحہ ۲۲۲ میں حضرت امام حسن العسکری علیہ السلام سے منقول ہے کہ المَن سے مراد ترنجبین ہے جو درختوں پر گرا کرتی تھی۔

تفسیرقمی میں ہے :

وَ یَنْزِلُ عَلَیْہِمْ بِالْلَیْلِ اَلْمَنُّ فَیَقَعُ عَلَی النَّبَاتِ وَ الشَّجَرِ وَ الْحَجَرِ فَیَاکُلُوْنَہٗ ۔ {المیزان ۱ : ۱۹۱}

مَن رات کو نازل ہوتی تھی اور نباتات، درختوں اور پتھروں پر گرتی تھی، جسے وہ کھاتے تھے۔

سَلْوی: قتادہ اس پرندے کی توضیح میں کہتے ہیں: تَحْشُرُھَا عَلَیْہِمْ رِیْحُ الْجُنُوْب ’’ ان پرندوں کو جنوب کی ہوا بنی اسرائیل تک لے آتی تھی۔

ڈکشنری آف دی بائبل۱: ۱۷۹ میں مذکور ہے: سمندری ہوا ان کی بے شمار تعداد بآسانی اسرائیلیوں کے ڈیر وں تک لے آتی تھی} دریا بادی ص۲۳}

مَن اور سَلْوی بنی اسرائیل پر اللہ کی نعمتوں میں سے ضرور ہیں، لیکن یہ بات ہنوز تشنۂ تحقیق ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نے یہ دو نعمتیں طبیعی علل و اسباب سے ہٹ کر بطورمعجزہ فراہم فرمائی تھیں یا طبیعی قانون کے تحت ظاہری علل و اسباب کے ذریعے؟

البتہ آیت کا لب و لہجہ دونوں سے کوئی منافات نہیں رکھتا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتوں کو ترک کرنا ظلم اور کفران نعمت ہے۔

۲۔ اللہ کی نافرمانی کا نقصان اللہ کو نہیں بلکہ خود بندے کوپہنچتا ہے۔

تحقیق مزید:

الفقیہ ۱ : ۵۰۳۔ مستدرک الوسائل ۱۱ : ۱۳۳


آیت 57