آیت 56
 

ثُمَّ بَعَثۡنٰکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ پھر تمہارے مرنے کے بعد ہم نے تمہیں اٹھایا کہ شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔

تشریح کلمات

بَعَث:

( ب ع ث ) مرنے کے بعد اٹھانا: قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ۔۔۔۔ {یس: ۵۲۔} کہیں گے : ہائے ہماری شامت! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا۔ نیند، بیہوشی جمود، سکوت یا غفلت سے اٹھانا: وَ کَذٰلِکَ بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ۔۔۔۔ {۱۸ کہف: ۱۹۔} ترجمہ: اسی انداز سے ہم نے انہیں بیدار کیا تاکہ یہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں۔ عدم سے وجود میں لانا: فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا ۔۔۔۔ {۵ مائدہ: ۳۱۔} ترجمہ: پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا۔ کسی مقصد کی طرف روانہ کرنا: وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا ۔۔۔۔ {۱۶ نحل: ۳۶۔} ترجمہ : اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے۔

آیہ شریفہ میں بعث سے مراد مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہے اور موت سے مراد نیند یا بے ہوشی نہیں ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے۔

آیہ مجیدہ میں بَعَثَ اور مَوت دونوں الفاظ ایک دوسرے کے معنی کے تعین کے لیے قرینہ ہیں۔ چنانچہ موت قرینہ ہے کہ بَعَث سے مراد احیاء ہے اور بَعَثَ قرینہ ہے کہ مَوت سے مراد ’’بے ہوشی‘‘ وغیرہ نہیں ہے نیز لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ کے ذریعے خدائی احسانات جتائے جا رہے ہیں۔ واضح ہے کہ بے ہوشی سے ہوش میں لانا ایسی بات نہیں جس پر احسان جتایا جائے۔ احسان تو یہ ہے کہ مردے کو زندہ کر دیا جائے۔

تفسیر آیات

بنی اسرائیل کے مطالبے پر جب حضرت موسیٰ (ع) ستر افراد کو لے کر کوہ طور پر گئے اور بارگاہ خداوندی میں ان کا مطالبہ پیش کیا تو آسمان سے رعب دار اور ہیبت ناک بجلی ان پر گری، جس کی وجہ سے وحشت زدہ ہو کر سب بے جان ہو کر زمین پر گر پڑے۔

یہ ماجرا دیکھ کر حضرت موسیٰ (ع) نہایت پریشان ہو ئے کہ قوم کو کیا جواب دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے ان الفاظ میں خدا سے دعا کی:

رَبِّ لَوۡ شِئۡتَ اَہۡلَکۡتَہُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ وَ اِیَّایَ ؕ اَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا ۚ اِنۡ ہِیَ اِلَّا فِتۡنَتُکَ ؕ تُضِلُّ بِہَا مَنۡ تَشَآءُ وَ تَہۡدِیۡ مَنۡ تَشَآءُ ؕ اَنۡتَ وَلِیُّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡغٰفِرِیۡنَ {۷ اعراف : ۱۵۵}

پروردگارا ! اگر تو چاہتا تو انہیں اور مجھے پہلے ہی ہلاک کر دیتا، کیا تو ہمارے کم عقل لوگوں کے اعمال کی سزا میں ہمیں ہلاک کر دے گا؟ یہ تو تیری ایک آزمائش تھی جس سے تو جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، تو ہی ہمارا آقا ہے، پس ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو معاف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

مندرجہ بالا بیان سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ ’’صاعقہ ‘‘کی وہ تفسیر مبنی بر حقیقت نہیں جس کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (ع) ان افراد کو ایک آتش فشاں پہاڑ کے پاس لے گئے تھے تاکہ یہ لوگ خوف زدہ ہو جائیں۔

اہم نکات

۱۔ ابتدائی زندگی سے موت واقع ہونے کے بعد کی دوسری زندگی زیادہ قابل شکر ہے۔

۲۔ موت کے بعد دنیا میں دوسری زندگی اتمام حجت کا آخری مرحلہ ہے۔


آیت 56