آیت 54
 

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنَّکُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِکُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡۤا اِلٰی بَارِئِکُمۡ فَاقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ عِنۡدَ بَارِئِکُمۡ ؕ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! تم نے گوسالہ اختیار کر کے یقینا اپنے آپ پر ظلم کیا ہے پس اپنے خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے لوگوں کو قتل کرو، تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے حق میں یہی بہتر ہے پھر اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی، بے شک وہ خوب توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

تشریح کلمات

بَارِی:

(ب ر ا) خالق۔ برء بیماری سے صحت مند ہونا۔ قرآن مجید میں ایک جگہ لفظ باری کے ساتھ دو اور وصف ذکر ہوئے ہیں: ہُوَ اللّٰہُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۔۔ {۵۹ حشر: ۲۴۔ ترجمہ: وہی اللہ ہی خالق، موجد اور صورت گر ہے جس کے لیے حسین ترین نام ہیں۔} خالق اور باری میں فرق یہ ہے:

الف: باری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ب: یہ لفظ ہر چیز کے لیے نہیں بلکہ جاندار چیزوں کی خلقت کے لیے استعمال ہوتا ہے خَالِقُ الۡخَلۡقِ وَ بَارِیُٔ النَسَمَاتِ۔

ج : یہ اس مقام پر بولا جاتا ہے جہاں ان دقیق رموز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو جن کا احاطہ صرف عالم الغیب ہی کر سکتا ہے۔

یہاں پر باری کے استعمال سے یہ لطیف اشارہ ملتا ہے کہ جانور کو خدا بنانے والے کس قدر احمق ہیں۔ انہیں اپنے اس خالق کے حضور توبہ کرنی چاہیے جس نے انہیں اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ پر خلق فرمایا ہے۔

تفسیر آیات

گوسالہ پرستی دین خدا سے ارتداد اور شرک باللہ ہے: اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ۔۔۔ {۳۱ لقمان: ۱۳۔ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے} اور چونکہ شرک توحید کی اہانت اور عہد شکنی ہے۔ اس لیے اس کی سزا بھی جرم کی شدت کے مطابق ہے۔ یعنی بت پرستوں کو اپنے ہی رشتے داروں کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے۔

مفسرین لکھتے ہیں: ان لوگوں کو حکم ملا کہ فتنۂ گوسالہ سے بری الذمہ افراد گوسالہ پرستوں کو قتل کر دیں۔

توریت میں ہے: قبیلہ بنی لاوی چونکہ اس بت کے سامنے نہیں جھکا تھا، اس لیے اسے حکم ملا کہ وہ بت پرستوں کو قتل کر دے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ہی بت پرست رشتہ داروں کو قتل کر دیا۔

ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ’’ اس میں تمہاری بھلائی ہے‘‘۔ کیونکہ ایک جسم یا امت سے کسی ناسور کو کاٹ کر جدا کرنے میں ہی اس جسم یا امت کی بھلائی مضمر ہوتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ حکم خداوندی کی تعمیل میں رشتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

۲۔ حدود الہٰی کے اجرا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے میں انسانیت کی بھلائی مضمر ہے۔

تحقیق مزید: الدر المنثور ۱ : ۱۳۵۔ تفسیر القمی ۱ : ۴۷۔ القصص ص ۲۶۷۔


آیت 54