آیات 51 - 53
 

وَ اِذۡ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰۤی اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَنۡتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا پھر اس کے بعد تم نے گوسالہ کو (بغرض پرستش) اختیار کیا اور تم ظالم بن گئے۔

ثُمَّ عَفَوۡنَا عَنۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معاف کر دیا کہ شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔

وَ اِذۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ الۡفُرۡقَانَ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ہم نے موسیٰ کو(توریت) کتاب اور فرقان (حق و باطل میں امتیاز کرنے والا قانون) عطا کیا تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔

تشریح کلمات

مُوۡسٰۤی:

موسیٰ بن عمران (ع)۔ سلسلۂ بنی اسرائیل کے سب سے بڑے، مشہور اور جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے۔ توریت میں ہے کہ آپ (ع)نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔ {استثناء : ۲۴ : ۷}

مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ آپؑ کا زمانہ پندرھویں اور سولہویں صدی قبل مسیح کا تھا۔ سال ولادت غالباً ۱۵۲۰ سال قبل از میلاد اور سال وفات غالباً چودہ سو سال قبل از میلاد تھا {دریابادی ص ۲۲}

موسیٰ دو قبطی لفظوں سے مرکب ہے۔ مو پانی اور شے درخت۔ عبرانی شین کو عربی سین سے بدل کر لفظ موسیٰ بنا دیا گیا۔

الۡعِجۡلَ:

گوسالہ، بچھڑا۔

عفو:

(ع ف و) در گزر کرنا۔ اس کا اصل معنی ’’ مٹانا ‘‘ ہے۔ عُفِی الرِّیْحُ الْاَثَرَ ۔ ہوا نے علامت مٹا دی۔ چنانچہ گناہ کے آثار و نتائج کو مٹانے کے لیے عفو کا لفظ استعمال ہوا۔

فرقان:

حق و باطل میں فرق نمایاں کرنے والا۔ یہ لفظ قرآن اور توریت، دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔

لَعَلَّ:

لفظی ترجمہ ’’ شاید ‘‘ ہے۔ جب یہ لفظ انسان سے صادر ہو تو ’’ شاید ‘‘ اور ’’ امید ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔ لیکن جب یہ اللہ تعالیٰ سے صادر ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس جملے پر لَعَلَّ دا خل ہے، وہ اللہ کے نزدیک محبوب ہے۔ چنانچہ ہدایت حاصل کرنا اللہ کے نزدیک پسندیدہ امر ہے۔

تفسیرآیات

یہ واقعہ سورئہ اعراف میں بھی مذکور ہے، جہاں فرمایا:

وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً {۷ اعراف: ۱۴۲}

اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس (دیگر) راتوں سے اسے پورا کیا، اس طرح ان کے رب کی مقررہ میعاد چالیس راتیں پوری ہو گئی۔

معلوم ہوتا ہے کہ چالیس کے عدد میں کوئی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اسے اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ رسول اکرم (ص)نے فرمایا :

مَنْ اَخْلَصَ لِلّٰہَ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحاً ظَھَرَتْ یَنَابِیْعُ الْحِکْمَۃِ مِنْ قَلْبِہٖ عَلَی لِسَانِہٖ۔ {جامع الاخبار ص ۹۴۔ الفصل الثانی و الخمسون فی للسان}

جو شخص اللہ کے لیے خلوص کے ساتھ چالیس صبح گزارے تو حکمت کے چشمے اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری ہوں گے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بار شریعت ڈالنے اور انہیں اس منصب جلیلہ کے لیے آمادہ کرنے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے چالیس دن تک انہیں کوہ طور پر ٹھہرایا۔

یہ وعدہ پہلے تیس دن کا تھا بعد میں بڑھا کر چالیس دن کر دیے گئے۔ اس بارے میں امین احسن اصلاحی صاحب کی عبارت یہ ہے:

ابتداً یہ وعدہ تیس دن کا تھا، لیکن حضرت موسی علیہ السلام مقررہ مدت سے پہلے پہنچ گئے۔ ان کی اس جلدی کے سبب سے اللہ تعالیٰ کی حکمت تربیت متقضی ہوئی کہ یہ مدت تیس دنوں سے بڑھا کر چالیس دن کر دی جائے۔

حالات اور تقاضوں کے بدلنے سے جب اللہ تعالیٰ کا تکوینی فیصلہ بدلتا ہے تو اسے بدَاء کہتے ہیں اور جب اللہ کا شرعی حکم بدلتا ہے تو اسے نسخ کہا جاتا ہے۔ البداء منزلتہ فی التکوین منزلۃ النسخ فی التشریع ۔ {بحار الانوار ۴: ۱۲۵۔ باب۲ البداء}

وعدہ گاہ : کوہ طور کی دا ہنی جانب تھی: وَ نَادَیۡنٰہُ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنِ ۔۔۔۔ {۱۹ مریم : ۵۲۔ ترجمہ : اور ہم نے انہیں طور کی داہنی جانب سے پکارا}

وقت وعدہ: یکم ذی القعدہ تا دس ذی الحجۃ الحرام۔ یہ وہ ایام ہیں جن میں حضرت آدم (ع) کی توبہ قبول ہوئی اور یہی حج کے ایام ہیں۔ یہ دو مہینے حرمت والے مہینوں میں سے ہیں۔

ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَنۡتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ۔ بعض اقوال کی بنا پر بنی اسرائیل نے مصریوں کی گائے پرستی سے متاثر ہو کر یہ گمراہی اختیار کی تھی۔ بہر کیف اسرائیلیوں نے حضرت موسیٰ (ع) کی غیبت کے چند روز بعد ہی ان کی تعلیمات سے انحراف کر کے دین موسیٰ(ع) کے ایک بنیادی اصول کو ترک کر دیا تھا اور سب کے سب مشرک ہو گئے تھے۔ جب کہ حضرت موسیٰ (ع) کے نمائندے اورحجت خدا حضرت ہارون (ع) کے درمیان موجود تھے، لیکن انہوں نے نہ صرف ان کی نافرمانی کی بلکہ انہیں جان سے مار دینے کی دھمکی بھی دی۔

اہم نکات

۱۔ کسی اہم ذمہ داری کو سنبھالنے سے قبل حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق مناسب تربیت ضروری ہے۔

۲۔ معنوی کمال اور روحانی فیوض وبرکات سے بہرہ مند ہونے کے لیے چالیس کے عدد کو ایک خاص تاثیر حاصل ہے۔

۳۔ حالات اور واقعات کی مناسبت سے اگر اللہ تعالیٰ کے تکوینی فیصلے میں تبدیلی آئے تو اسے بداء اور اگر تشریعی فیصلہ بدل جائے تو اسے نسخ کہتے ہیں۔

۴۔ اندھی تقلید گمراہی کا سبب بنتی ہے۔


آیات 51 - 53