آیت 7
 

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾

۷۔اللہ نے ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر مہر لگا دی ہے نیز ان کی نگاہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

تشریح کلمات

ختم:

( خ ت م ) مہر لگا دی۔

قلب:

( ق ل ب ) لغت میں دل اور محاورے میں وجدان، عقل اور ضمیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

غشاوۃ:

( غ ش و ) پردہ۔

عذاب:

( ع ذ ب ) روکنا۔ نعمت ابدی تک پہنچنے سے روکنے والی ہر شے عذاب ہے۔ اسی طرح حیات کی شیرینی سے محروم ہونا بھی عذاب ہے۔

تفسیر آیات

یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا نے کفار کے دلوں پرمہر لگادی ہے اور وہ ایمان لانے سے قاصر ہیں، تو ان کے کفر کا سبب خداکا عمل (مہر لگانا) ہے، گویا انہوں نے مجبوری کے عالم میں کفر اختیار کیا ہے، اب ان کی مذمت کیونکر درست ہو سکتی ہے؟

جواب: اعمال و افعال عباد کے بارے میں مسلمانوں میں متعدد مؤقف موجود ہیں۔ پہلا مؤقف ’’نظریہ جبر ‘‘ کہلاتا ہے اور مسلمانوں کا ایک کلامی فرقہ اشاعرہ اس کا قائل ہے، جب کہ مذہب امامیہ انسان کو خود مختار سمجھتا ہے۔

اس آیت کی طرح دیگر متعدد آیات سے نظریہ جبر کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے، لیکن ان آیات سے نظریہ جبر ثابت نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ تو ایمان لانے کے سلسلے میں کوئی جبر ہے: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ {بقرۃ: ۲۵۶۔ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں} اور نہ کفر اختیار کرنے کے سلسلے میں کوئی جبرہے، بلکہ خدا تو اپنے رسولوں اور اپنی نشانیوں کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا دیتا ہے: اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا﴿﴾ ۔ {۷۶ دھر: ۳۔ ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی، خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔} اتمام حجت کے بعد جب کفار پر حق واضح ہو جاتا ہے اور ان کا دل اس دعوت کی حقانیت کا ادراک بھی کر لیتا ہے تو اگر وہ حق کے خلاف عمداً دشمنی نہ رکھیں تو رحمت الٰہی اور توفیق خداوندی ان کے شامل حال ہوتی ہے اور انہیں ہدایت کے مزید عوامل و اسباب فراہم کیے جاتے ہیں، انہیں ہرگز ان کے حال پر چھوڑا نہیں جاتا۔ لیکن اگر وہ حق کے واضح اور آشکار ہو جانے کے بعد بھی عناد و دشمنی کی بنا پر ایمان نہیں لاتے تو ایسے کفار کو خدا ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے: فَنَذَرُ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿﴾ ۔ {۱۰ یونس: ۱۱۔ لیکن جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں مہلت دیے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں} اب ظاہر ہے کہ اس صورت میں انہیں ہدایت کی توفیق نصیب نہیں ہوتی، در نتیجہ ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ حق سے ان کی دشمنی کی وجہ سے ہوتا ہے: فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ {۶۱ صف: ۵} پس جب وہ ٹیڑھے رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۔ {۲ بقرۃ : ۱۰۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی} پہلے یہ لوگ کفر اختیار کرتے ہیں پھر اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے: بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ ۔۔ {۴ نساء: ۱۵۵۔ بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر لگا دی ہے} جس طرح ایک سرکش اور نافرمان بیٹے کو اس کا باپ آخر کار اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے: ’’جہنم میں جاؤ‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ سرکشوں کو انتقام و سزا کے طور پر گمراہی کے منہ میں جانے دیتا ہے۔

مؤمنین کو اس آیہ وافی ہدایہ کے ذریعے اس بات سے باخبر کیا جا رہا ہے کہ وہ ہر لمحہ توفیق و رحمتِ الٰہی کے محتاج ہیں۔انہیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ کہیں ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے توفیق الہی سلب نہ ہو جائے، دلوں پر مہر نہ لگ جائے اور اللہ انہیں ان کے حال پرنہ چھوڑ دے۔ اسی لیے ائمہ علیہم السلام سے مروی دعاؤں میں یہ جملہ بکثرت ملتا ہے : رَبِّ لَا تَکِلْنِی اِلَی نَفْسِی ’’میرے مالک! مجھے میرے حال پر نہ چھوڑ۔‘‘ {اصول الکافی ۲ : ۵۸۱ امام صادق (ع) سے روایت منقول ہے}

امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے :

اَلْخَتْمُ ھُوَ الطَّبْعُ عَلَی قُلُوبِ الْکُفَّارِ عُقُوبَۃً عَلَی کُفْرِھِمْ ۔ {بحار الانوار ۵ : ۱۱}

مہر لگ جانے کا مطلب کفار کے دلوں کو بند کرنا ہے اور یہ کفر اختیار کرنے کی سزا کے طور پر ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کسی کو بلاوجہ گمراہ نہیں کرتا بلکہ ہر شخص اپنے برے اعمال کے نتیجے میں ہدایت پانے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور اسی کا نام گمراہی ہے۔

۲۔ اللہ کی طرف سے گمراہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ کفار کو ہدایت کی توفیق نہیں دیتا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

۳۔ حق کے مقا بلے میں ضد اور ہٹ دھرمی سلب ہدا یت کا موجب ہے۔

تحقیق مزید: عیون اخبار ۱: ۱۳۳۔ بحار الانوار ۹ : ۱۷۴۔ الاحتجاج ۲: ۴۵۵


آیت 7