آیات 96 - 97
 

اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ قَالَ انۡفُخُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِیۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًا ﴿ؕ۹۶﴾

۹۶۔ تم مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو، یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کی درمیانی فضا کو برابر کر دیا تو اس نے لوگوں سے کہا: آگ پھونکو یہاں تک کہ جب اسے بالکل آگ بنا دیا تو اس نے کہا: اب میرے پاس تانبا لے آؤ تاکہ میں اس (دیوار) پر انڈیلوں۔

فَمَا اسۡطَاعُوۡۤا اَنۡ یَّظۡہَرُوۡہُ وَ مَا اسۡتَطَاعُوۡا لَہٗ نَقۡبًا﴿۹۷﴾

۹۷۔ اس کے بعد وہ نہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ ہی اس میں نقب لگا سکیں۔

تشریح کلمات

زُبَرَ:

زبرۃ کی جمع لوہے کے بڑے ٹکڑے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ: دونوں پہاڑوں کے سروں کے درمیانی حصے کو لوہے کی اینٹوں سے پر کر کے پہاڑوں کے برابر کر دیا پھر اس دیوار پر پگھلا ہوا تانبا اُنڈیلا تو وہ ایسا بند بن گیا کہ یاجوج ماجوج اسے توڑ کر دوسری آبادیوں پر حملہ نہ کر سکے۔

ایک ایسی آ ہنی دیوار بنائی گئی جسے پگھلے ہوئے تانبے سے مزید مستحکم بنایا گیا۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ سد بحر خزر اور بحر اسود کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔ کہتے ہیں آج بھی ’’دریال‘‘ کے علاقے میں اس آہنی دیوار کے آثار موجود ہیں اور اس کے سد ذوالقرنین ہونے پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ واحد دیوار ہے جس میں لوہا استعمال ہوا ہے۔

ابن خردار نے اپنی کتاب المسالک والممالک میں لکھا ہے کہ عباسی خلیفہ واثق باللہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ اسسد کو فتح کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے چند افراد کو اس سد کے مشاہدے کے لیے بھیجا تو انہوں نے دیکھا یہ سد لوہے کی اینٹوں سے بنا ہوا ہے اور یہ اینٹیں پگھلے ہوئے تانبے سے جڑی ہوئی ہیں۔ (بحار الانوار ۶: ۳۰۱)


آیات 96 - 97