آیات 86 - 87
 

وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا ﴿ۙ۸۶﴾

۸۶۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سب سلب کر لیں، پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔

اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا﴿۸۷﴾

۸۷۔ سوائے آپ کے رب کی رحمت کے، آپ پر یقینا اس کا بڑا فضل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ربط کلام اس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہیں تو بہت کم علم دیا گیا ہے اور جو کچھ اے رسول! آپ کو وحی کے ذریعے دیا گیا ہے اس کا بھی حال یہ ہے کہ ہم اگر چاہیں تو وہ سب سلب کر سکتے ہیں اور اگر ہم سلب کرنے پر آئیں تو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا جو سلب کرنے نہ دے۔

۲۔ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ: صرف آپ کے پروردگار کی رحمت ہے جو اس جگہ آپ کے کام آسکتی ہے۔

۳۔ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا: اوپر کی بات ایک اصولی موقف کا بیان ہے ورنہ عملاً نہ اللہ اس علم کو آپؐ سے سلب کرے گا، نہ آپؐ کو رحمت رب کے سوا کسی اور حمایتی کی ضرورت ہے۔ آپؐ پر یقینا اللہ کا بڑا فضل ہے۔ جس پر اللہ کا بڑا فضل ہے اس سے وہ فضل سلب نہیں ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ جس چیز کو اللہ سلب کرے اسے کوئی بچا نہیں سکتا۔

۲۔ رسول اللہؐ کی ذات پر اللہ کی طرف سے وہ فضل ہوا ہے جسے اللہ تعالیٰ کَبِیۡرًا سے تعبیر فرماتا ہے۔


آیات 86 - 87